﴿درس
ختمِ بخاری شریف﴾
افادات: مفتی عمر فاروق لوہاروی ، شیخ الحدیث
دارالعلوم لندن- یوکے
ترتیب: الیاس لوہاروی (جامعہ
اسلامیہ، ڈابھیل)
۱لحمد للّٰہ رب العالمین․ والصلاة والسلام علی سیدنا ومولانا محمد خاتم
النبیین، وعلی آلہ وأصحابہ أجمعین، وعلی کل من
تبعہم باحسان الی یوم الدین․
اما بعد: قال النبي صلى الله عليه وسلم : الراحمون یرحمہم الرحمن - تبارک و
تعالٰی - ارحموا من فی الارض یرحمکم من فی السماء․ رواہ ابوداود
والترمذی واحمد عن عبد اللّٰہ بن عمرو بن العاص رضی
اللّٰہ عنہما․
حدیثِ مسلسل
بالاوّلیت اور اس کی سند
یہ حدیث
پاک جو اس وقت پڑھی گئی ہے، اسے حضراتِ محدثین کی اصطلاح
میں ”حدیث مسلسل بالاوّلیت“ کہاجاتا ہے، اس لیے کہ ہر
تلمیذ نے اپنے استاذ سے سب سے پہلے یہ حدیث سنی ہے۔
طالبات کا تسلسل بالاوّلیت قائم کرنے کے لیے اس کو یہاں سب سے
پہلے تلاوت کیاگیا ہے۔
حدیث مسلسل
بالاوّلیت کے متعلق یہ بات ملحوظ رہے، کہ یہ تسلسل
راویٴ حدیث سفیان بن عیینہ تک ہی ہے،
جیسا کہ حافظ شمس الدین الجزری رحمہ اللہ نے ذکر فرمایا
ہے۔ سفیان بن عیینہ اور ان کے اوپر کے رواة: عمرو بن
دینار، ابوقابوس مولیٰ عبداللہ بن عمرو بن العاص اور حضرت
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما نے اس کو مسلسل روایت
نہیں کیا ہے۔اور جنھوں نے سفیان بن عیینہ
رحمة اللہ علیہ یا ان سے اوپر تسلسل کو پہنچایا، ان کومغالطہ
ہوگیا ہے۔
یہاں
دوسری بات یہ قابلِ لحاظ ہے، کہ ”الراحمون یرحمہم الرحمٰن“ کے بعد ”تبارک وتعالیٰ“ روایت میں نہیں ہے، اسی لیے علامہ ابن
الجوزی اور علامہ جلال الدین سیوطی رحمہما اللہ
وغیرہ نے اس کو ساقط کردیا ہے، اور بعضوں نے اللہ تعالیٰ
کے نام کے ذکر کے وقت ثناء کے لیے زیادہ کیا ہے۔
حدیث شریف کی تلاوت کرنے والے کے لیے آداب میں سے
قرار دیاگیا ہے، کہ اللہ تعالیٰ کے نام کے ذکر کے وقت ان
جیسے کلمات کہے، اگرچہ لکھے ہوئے نہ ہوں۔
حدیث مسلسل
بالاولیت میں میری چند اسانید ہیں، جن
میں سے سرِدست دو شیوخ کی ایک سند نقل کرتاہوں:
محدث العصر حضرت
مولانا محمدیونس صاحب جونپوری دامت برکاتہم العالیہ شیخ
الحدیث مدرسہ مظاہر علوم، سہارنپور، یوپی، الہند اور حضرت
مولانا ڈاکٹر تقی الدین صاحب ندوی دامت برکاتہم (رئیس
الجامعہ الاسلامیہ،اعظم گڑھ، یوپی، الہند) سے سب سے پہلے
یہ روایت میں نے سنی۔ ان دونوں حضرات نے یہ
روایت سب سے پہلے شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب
کاندھلوی مہاجر مدنی نوراللہ مرقدہ سے سنی۔ انھوں نے حضرت
مولانا خلیل احمد صاحب سہارنپوری نوراللہ مرقدہ سے، انھوں نے حضرت
مولانا عبدالقیوم صاحب بڈھانوی رحمة اللہ علیہ سے، انھوں نے
حضرت شاہ اسحاق صاحب دہلوی رحمة اللہ علیہ سے، انھوں نے اپنے نانا
حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب محدث دہلوی رحمة اللہ علیہ سے اور
انھوں نے اپنے والد بزرگوار حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی رحمة
اللہ علیہ سے سنی۔ اور حضرت شاہ صاحب رحمة اللہ علیہ کی
سند از اوّل تا آخر ان کی کتاب ”الفضل المبین فی المسلسل من حدیث
النبی الامین“ میں مذکور
ہے۔
شیخ
الحدیث حضرت مولانا محمد یونس صاحب مدظلہم کی اس سند کے علاوہ
شیخ احمد قلاش، شیخ احمد بن عبداللہ اور شیخ احمد بن عبدالسلام
سوڈانی وغیرہ کئی مشائخ کی اور بھی اسانید
ہیں۔
وبالسند المتصل منا الیٰ امیر
الموٴمنین فی الحدیث: ابی عبدِ اللّٰہ محمدِ
بنِ اسمٰعیلَ بنِ ابراہیمَ بنِ المغیرةِ بنِ بَرْدِزْبَةَ
الجُعفیِّ البخاریِّ رحمہ اللّٰہ تعالیٰ رحمةً
واسعةً الیٰ یوم الدین، ونفعَنا بعلومہ، وحشرَنا فی
زُمرتِہ، آمین، انہ قال:
باب قول اللّٰہ
تعالی: ﴿ونضع
الموازین القسط لیوم القیامة﴾ وأن اعمالَ بنی آدمَ
وقولَہم یُوزَن، وقال مجاہدٌ: القسطاسُ العدلُ بالرومیة․ ویقال: القسطُ مصدرُ
المقسطِ وہو العادلُ، واما القاسطُ فہو الجائر․
اصولِ ستہ کے
مصنّفین کی علوہمتی ایک حدیث کے آئینہ
میں
یہ ایک
حقیقت ہے ، کہ ”صحیح بخاری“ حدیثِ پاک کی ان معروف
و مشہور چھ کتابوں میں امتیازی مقام کی حامل ہے،
جنھیں ”اصولِ ستہ“ یا ”کتبِ ستہ“ کہا جاتا ہے۔ میں ہمارے
اِس دیار میں عامةً یا عموماً ”کتبِ ستہ“ یا ”اصولِ ستہ“
ہی کا لفظ استعمال کرتا ہوں، اس لیے کہ مخاطبین میں مختلف
مکاتبِ فکر کے لوگ ہوتے ہیں، کہیں ایسا نہ ہو، کہ ان میں
سے کسی کا نظریہ اس بارے میں مختلف ہو، اور وہ ”صحاح ستہ“ بولنا
اور لکھنا صحیح نہ سمجھتا ہو، اور وہ صحاح ستہ کا لفظ سن کر پوری
ہی بات کو رد کردے، ویسے برصغیر: ہندوپاک اور بنگلہ دیش
والوں کی اصطلاح ”صحاح ستہ“ ہی کی ہے، اور لامشاحّة فی
الاصطلاح․ ”اصطلاح میں کوئی مناقشہ اور جھگڑا نہیں
ہے“۔
یوں تو ان سب
کتابوں کے مصنّفین نے طلبِ علم حدیث اور جمع احادیث کے
لیے جاں گُسَل محنت ومشقت برداشت کی ہے،اور اس علوہمتی اور
بلندحوصلگی کا ثبوت دیا ہے، جس کی طرف ”صحیح بخاری“
وغیرہ کی ایک حدیث پاک میں اشارہ
فرمایاگیاہے:
حضرت ابوہریرہ
رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، کہ ہم نبی صلى الله عليه وسلم کے پاس
بیٹھے ہوئے تھے، کہ آپ پر سورئہ جمعہ کی یہ آیتِ
کریمہ نازل ہوئی: ﴿وآخرین منہم لما یلحقوا بہم﴾ (الجمعة:۳) (اور اللہ وہی ہے، جس نے
امّیین کے علاوہ دوسروں کے لیے بھی آپ کو مبعوث
فرمایا، جو ان میں سے ہونے والے ہیں، لیکن اب تک ان
میں شامل نہیں ہوئے) تو میں نے عرض کیا: یا رسول
اللہ! وہ کون لوگ ہیں؟ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے کوئی جواب
نہیں دیا۔ تین مرتبہ دریافت کیے جانے کے بعد
آپ نے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ پر اپنا دستِ مبارک رکھ کر ارشاد
فرمایا: لو کان الایمانُ عند
الثریا لَنالَہ رجالٌ مِن ہوٴلاء․”اگرایمان ثُریّا
ستارہ کے پاس ہوتا، تو ان لوگوں میں سے یعنی ابناءِ فارس
یا عجمیوں میں سے کچھ لوگ اس کو پالیتے۔“
”مسندِ احمد“
کی ایک روایت میں ”لوکان العلمُ عند الثریا“ وارد ہوا ہے۔
مطلب یہ ہے ،
کہ اگر دین وعلم بعید سے بعید تر ہوتا، جس کو عامة الناس نہ
پاتے، تو ابناءِ فارس اور عجمیوں میں سے کچھ لوگ اس کو
پالیتے۔
بعض علماء نے اس کا
مصداق ہمارے حضرت امام ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ کو قرار دیا
ہے۔ علامہ جلال الدین سیوطی رحمة اللہ علیہ نے ”تبییض
الصحیفة“ میں اسی کو اختیار کیاہے۔
اور ان کے تلمیذ رشید شیخ محمد بن یوسف رحمة اللہ
علیہ بھی اسی کے قائل ہیں۔ بلاشبہ حضرت امام
ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ ابناءِ فارس کے درمیان علم وفضل
میں ذروئہ کمال پر فائز اور یگانہٴ روزگار تھے، لیکن آپ
نے پڑھ لیا ہے، کہ ”صحیح بخاری“، ”کتاب التفسیر“
میں یہ روایت دو طریق سے آئی ہے۔ پہلے
طریق میں راوی کو تردّد ہے، کہ ”رجال“ بصیغہٴ جمع
کہا، یا ”رجل“ بصیغہٴ مفرد کہا، لیکن دوسرے طریق
میں بلاتردّد ”رجال“ بصیغہٴ جمع وارد ہوا ہے۔ اسی
طرح دیگر کتب حدیث کی اکثر روایات میں ”ناس“ اور
”رجال“ مروی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے، کہ یہاں تنہا ایک
شخص مراد نہیں؛ بلکہ بہت سے آدمی مراد ہیں، اسی لیے
شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت
برکاتہم کے نزدیک اس سے مراد فقہاء اور محدثین کی ایک
بڑی جماعت ہے، جس کا تعلق ”فارس“ سے ہے۔ اور محدث العصر حضرت علامہ
انور شاہ کشمیری رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں، کہ ظاہر
یہ ہے، کہ اس سے عجم کے وہ علماءِ کبار اورحاملینِ شریعت مراد
ہیں، جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کی نصرت کے
لیے کھڑا کیا، اور بلاشبہ ایسے حضرات عجم میں بڑی
تعداد میں ہوئے، یہاں تک کہ کتبِ ستّہ کے مصنّفین سب کے سب عجم
سے تعلق رکھنے والے ہیں۔
بندہ کہتا ہے، کہ
حضرات محدثین کے مراد ہونے پر قرینہ یہ ہے، کہ حافظ
ابونعیم اصبہانی رحمة اللہ علیہ نے دوسرے طریق سے اس
روایت کی تخریج کی ہے، اس میں جہاں اور کلمات کا
اضافہ ہے، وہیں یہ کلمہ بھی ہے: ویُکثِرون الصلاةَ علَیّ․ یعنی وہ
مجھ پر بکثرت درود پڑھیں گے۔ اور ظاہر ہے، کہ حضرات فقہاء کرام کے
مقابلے میں الفاظِ احادیث کے ساتھ حضرات محدثین کا اشتغال
زیادہ ہوتا ہے، اس لیے بار بار رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے اسم
گرامی کے ذکر کی وجہ سے ان کا درود شریف پڑھنا بھی
زیادہ ہی ہوگا۔
ابھی
جیسا کہ ذکر کیاگیا،کتب ستہ کے مصنّفین سبھی عجم
ہی سے تعلق رکھنے والے ہیں۔ اور امام بخاری رحمة اللہ
علیہ کی نسبت میں جو ”جُعفی“ آتا ہے،اس کے متعلق آپ نے
پڑھ لیا ہے، کہ وہ اس لیے نہیں کہ ان کا ”بنو جُعفی“
خاندان سے کوئی تعلق تھا، جو یمن کا ایک قبیلہ ہے؛ بلکہ
آپ کے پردادا مغیرہ نے امیرِبخارا ”یمان بن اخنس جعفی“
(امام بخاری رحمہ اللہ کے شیخ عبداللہ بن محمد المُسْنَدی کے
دادا کے دادا) کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا تھا، تو نسبت ولاءِ اسلام کی
وجہ سے مغیرہ کو ”جعفی“ کہا جانے لگا، اور امام بخاری رحمة اللہ
علیہ کی نسبت میں بھی ”جعفی“ پردادا کی نسبت
سے آگیا۔
امام مسلم بن الحجاج
رحمة اللہ علیہ کی نسبت میں ”قُشَیْرِی“ آتا ہے اور
”قُشَیْرِی“ بنوقُشیر کی طرف نسبت ہے، جو عرب کا
ایک قبیلہ ہے۔ حافظ ابن صلاح رحمة اللہ علیہ کی
رائے تو یہ ہے، کہ امام مسلم رحمہ اللہ نسبی اعتبار سے عربی
ہیں، لیکن حافظ ذہبی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:
لعلہ من موالی قُشیر․ شاید امام
مسلم رحمہ اللہ کی نسبت قُشَیْر کی طرف اس لیے کردی
گئی ہے، کہ ان کے بڑے بنوقشیر سے ولاء کا تعلق رکھتے تھے،
یعنی ان کے آزاد کردہ غلاموں میں سے تھے۔ یا ممکن
ہے، کہ آپس میں معاہدہ ہوگیا ہو، تو حِلْف کے تعلق کی
بنیاد پر ان کو قشیری کہتے ہوں۔ امام مسلم رحمہ اللہ کے
سلسلہٴ نسب میں پردادا کے بعد جو نام آتا ہے، یعنی
کَوْشاذ، یہ خالص فارسی لفظ ہے، اس سے حافظ ذہبی رحمة اللہ
علیہ کے قول کی تائید ہوتی ہے۔ علامہ ذہبی
رحمة اللہ علیہ نے ”لعل“ کا لفظ استعمال کیا ہے، جبکہ علامہ نسّابہ
شرف الدین ابومحمد التونی نے جزماً مولیٰ قشیر بن
کعب“ کہا ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔
بہرحال کتبِ ستہ کے
مصنّفین عجمی ہیں۔ اور امام بخاری رحمة اللہ
علیہ کا عجمی النسل ہونا تو ایک مسلّم حقیقت ہے۔ ان
کے پردادا مغیرہ کے والد ”بَرْدِزْبة“فارسی النسل مجوسی
تھے۔ سوچنے کا مقام ہے، کہ امام بخاری رحمة اللہ علیہ کو اللہ
تعالیٰ نے کیسا مقام عطا فرمایا! امام بخاری رحمة
اللہ علیہ ”بُخاریٰ“ کے رہنے والے، عجمی شخص اور
عجمی بھی ایسے، کہ ”صحیح بخاری“ عربی
میں تالیف فرمارہے ہیں، لکھتے لکھتے ایک جگہ فارسی
کا لفظ لکھ گئے، عجمی کلمہ جو عربی میں استعمال نہیں
ہوتا، ان کی کتاب میں در آیا۔ ”کتاب الحج“ میں صفحہ
۲۲۶پر امام بخاری رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:
ویُزادُ فی ہذا البابِ ہَمْ ہذا الحدیثُ
حدیثُ مالک عن ابن شہاب، ولکنی اریدُ ان ادخلَ فیہ
غیرَ معاد․
”اور اس باب
میں بھی اضافہ کیا جاسکتا ہے اس حدیث کا،
یعنی حدیثِ مالک عن ابن شہاب کا (جوباب سابق میں ہے)،
لیکن میں اس میں ایسی روایت ذکر کرنا
چاہتاہوں، جو غیرمکررہو“۔
گویاامام
بخاری رحمة اللہ علیہ سند ومتن کے اتحاد کے ساتھ تکرار کے روادار
نہیں ہیں، اس سے بچتے ہیں، لیکن لگے ہاتھ یاد
دلادوں، کہ حافظ ابن حجرعسقلانی رحمة اللہ علیہ کا مکتوب علامہ
قسطلانی رحمة اللہ علیہ نے مقدمہٴ ارشاد الساری میں
ذکر فرمایا ہے، اس میں ”صحیح بخاری“ کی
ایسی اکیس(۲۱) روایات مذکور ہیں، جو
مکرر بالسند والمتن ہیں۔ علامہ قسطلانی رحمة اللہ علیہ نے
ایک روایت کا اضافہ فرمایا، تو کل بائیس(۲۲)
روایات ہوگئیں۔ محدث العصر حضرت مولانا محمدیونس صاحب
دامت برکاتہم شیخ الحدیث مدرسہ مظاہرعلوم سہارنپور نے ایک سو
اٹھائیس(۱۲۸) روایات کا اضافہ فرمایا ہے، اس
اعتبار سے مجموعی تعداد ایک سو پچاس(۱۵۰)
ہوئی۔ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب
کاندھلوی نوراللہ مرقدہ نے اس مجموعہ کا نام ”ارشاد القاصد الٰی ما تکرر فی
البخاری باسناد واحد“ رکھا ہے۔
الغرض امام بخاری
رحمة اللہ علیہ سے شاید بے خیالی میں لفظ ”ہم“
عربی میں استعمال ہوگیا۔ یہ فارسی کا لفظ ہے،
جو ”بھی“ کے معنی میں آتا ہے۔ ایسے عجمی شخص
کی یہ کتاب جب عربوں میں پہنچی، تو انھوں نے اسے ہاتھوں
ہاتھ لی، اور اس کا اعتراف کیا کہ اصح الکتب بعد کتاب اللّٰہ ہو الصحیح
للبخاری․ ”کتاب اللہ کے بعد سب سے زیادہ صحیح کتاب امام
بخاری رحمة اللہ علیہ کی صحیح ہے۔“ ایسے
عجمی شخص جس کی چوتھی پشت میں غیرمسلم، لیکن
اہل عرب اور سارے عالمِ اسلام نے ان کو اپنا امام تسلیم کیا، اور ان
کی جلالتِ قدر اور علوِ شان کے سامنے اپنا سرجھکادیا۔اور
کیوں نہ ہو؟ جب کہ دیگر محدثین کی طرح بلکہ ان سے
کسی قدر امتیاز واختصاص کے ساتھ امام بخاری رحمة اللہ
علیہ کی حصولِ علم حدیث کے لیے جدوجہد اور کدوکاوش
حدیث نبوی ”لوکان الایمان -
اوالعلم- عند الثریا لنا لہ رجال من ہوٴلاء“ کی آئینہ دار تھی۔ طلب حدیث کے لیے راحت
وآسائش کو خیرباد کہا، متعدد بلادِ اسلامیہ کی خاک چھانی،
ہزاروں میل پاپیادہ اسفار کیے، فاقوں پر فاقے برداشت کیے،
راتوں کی نیندیں قربان کیں، اور اس قدر محنتیں اور
مشقتیں اٹھائیں، کہ آج ہم اورآپ اس کاتصور کرکے بھی لرز اٹھتے
ہیں۔
امام بخاری
رحمة اللہ علیہ نے چھ لاکھ احادیث کو تنقید کی
چھلنیوں سے چھان کر اور تنقیح کے چھاجوں میں پٹک کر اس کتاب
کی تالیف فرمائی۔ فنی اعتبار سے جانچنے اور پرکھنے
کے سارے ذرائع استعمال کرنے کے بعد ان پر اکتفاء نہ کرتے ہوئے اہتمام سے
ہرحدیث پر غسل کیا، دو دو رکعت نماز پڑھی،اور استخارہ
کیا، کہ آیا یہ حدیث اس کتاب میں لکھوں یا نہ
لکھوں۔ استخارہ کے بعد مکمل اطمینان و انشراح ہوگیا، تب اس
حدیث کو کتاب میں درج فرمایا۔
”صحیح
بخاری“ کو ”اصح الکتب بعد کتاب اللّٰہ“ یعنی کتاب اللہ کے
بعد سب سے زیادہ صحیح کتاب ہونے کا لقب یونہی محض
عقیدت ومحبت میں نہیں دیاگیا؛ بلکہ وقت کے نُقّادِ
حدیث اور علماءِ جرح وتعدیل نے خوردبین لگاکر اس کی
ایک ایک حدیث کا جائزہ لیا، سند کو پرکھا، متن کو جانچا،
اس طرح ایک ایک حدیث کی چھان پھٹک کرنے کے بعد یہ
نتیجہ نکالا اور پھر تقریباً پوری امت اس پر متفق
ہوگئی۔
”صحیح بخاری“
کے فضائل وبرکات اور خصائص و مَزایا کے کیا کہنے! امام ابوزید
المروزی رحمة اللہ علیہ جو بہت بڑے فقیہِ شافعی گذرے
ہیں، وہ فرماتے ہیں، کہ میں ایک مرتبہ حجرِاسود اور مقامِ
ابراہیم کے درمیان سویا ہوا تھا، خواب میں
نبیٴ اکرم صلى الله عليه وسلم کی زیارت ہوئی، آپ نے
فرمایا: یا ابا
زید،الی متی تدرّس کتاب الشافعی، وما تدرّس کتابی؟ اے ابوزید! کب تک تم (امام) شافعی کی
کتاب کے درس و تدریس میں لگے رہوگے،اور میری کتاب کا درس
و تدریس نہیں کروگے؟“ میں نے عرض کیا: یارسول اللّٰہ،
ماکتابک؟ ”یارسول اللہ! آپ کی کتاب
کونسی ہے؟“ نبیٴ اکرم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: جامع
محمد بن اسماعیل البخاری․ ”محمد بن
اسماعیل بخاری کی جامع۔“ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے
اس کتاب کی نسبت اپنی طرف فرمائی۔ اس طرح کا خواب امام
الحرمین رحمة اللہ علیہ کا بھی ہے۔ غیرنبی کا
خواب حجتِ شرعیہ نہیں، لیکن استیناس کے طور پر اسے
پیش کیاجاسکتا ہے۔
اس کتاب کو ایک
شرف و امتیاز ایساحاصل ہے، جو زمانہٴ اسلام میں آج تک
کتاب اللہ کے بعد کسی اورکتاب کو حاصل نہیں ہوسکا۔ اور وہ
یہ ہے، کہ خانہٴ کعبہ کے جوف میں، کعبة اللہ کے اندر کتاب اللہ
کے بعد اگر کوئی کتاب مکمل پڑھی گئی ہو، تو یہ
”صحیح بخاری“ ہے۔ ۱۰۴۰ھ میں
شیخ محمد علی صدیقی مکّی رحمہ اللہ صاحبِ
دلیل الفالحین نے اس کو جوفِ کعبہ میں مکمل پڑھا ہے۔
تراجمِ ابواب
کی باریک بینی
اس کتاب میں
امام بخاری رحمة اللہ علیہ کے صنیع کا بہت اہم حصہ اور
”صحیح بخاری“ کی خصوصیات میں سے ایک اہم
خصوصیت ان کے قائم فرمودہ عنوانات اور تراجم ابواب ہیں۔ کتب ستہ
میں ”صحیح مسلم“ کے تراجم توامام مسلم رحمة اللہ علیہ نے قائم
نہیں فرمائے ہیں، اس لیے اس کو چھوڑ کر بقیہ کتب خمسہ
میں ”صحیح بخاری“ ادقُّ التراجم ہے۔ ان تراجم ابواب
کی حیثیت ایک مستقل علم کی ہے۔ مشہور مقولہ
ہے: فقہُ البخاری فی تراجمہ․ امام بخاری
رحمة اللہ علیہ کے تراجم ان کے دقّتِ نظر اور ان کے تفقّہ کے ترجمان
ہیں۔ ان ابواب و تراجم میں کس قدر علو ومعارف،اسرار و رموز،
حقائق و دقائق، اور نِکات ولطائف پنہاں ہوں گے، اس کا اندازہ اس بات سے
لگائیے، کہ علاّمہ انور شاہ کشمیری رحمة اللہ علیہ
جیسے محدث العصر یہ تمنا کرتے تھے، کہ ان تراجم پر شیخ ابن
تیمیہ رحمة اللہ علیہ قلم اٹھاتے، تو نایاب چیز
ہاتھ لگ جاتی۔
شیخ الاسلام
ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ کے تفردات اپنی جگہ، مگر تراجم
ابواب میں ودیعت باریکیوں کا اندازہ لگانے کے لیے
حضرت شاہ صاحب قدس سرہ کا یہ مقولہ ذکر کیا ہے۔ اس جملہ کے وزن
کو اوراس کی وقعت و اہمیت کو وہ شخص سمجھ سکتا ہے، جو علامہ
کشمیری رحمة اللہ علیہ کی علمی فخامت وعظمت سے
کسی قدر واقفیت رکھتا ہو، یا علامہ ذہبی رحمة اللہ
علیہ کی وہ بات پڑھی یا سُنی ہو، جو شیخ ابن
تیمیہ رحمة اللہ علیہ کی وسعت نظر اور استحضار کی
غمّاز ہے، کہ امام ابن تیمیہ کے سامنے گویا کتابیں
کھلی ہوئی ہیں، یأخد منہا ما شاء، ویذر منہا ما شاء․”ان میں سے جو چاہتے ہیں، لیتے ہیں اور جو چاہتے
ہیں، چھوڑتے ہیں۔“
حقیقت یہ
ہے، کہ امام بخاری رحمة اللہ علیہ کے تراجم کی گہرائیوں
میں غوطہ زنی کرتے ہوئے حضرات علماء کو ایک ہزار سال سے
زیادہ ہورہے ہیں، اس کے باوجود ابھی تک کوئی شخص یہ
دعوی نہیں کرسکتا، کہ اس دیار کے تمام موتی اس نے
دریافت کرلیے ہیں، اور امام بخاری رحمة اللہ علیہ
کے مدارک کو اس نے پالیا ہے۔ حضرت مولانا انورشاہ کشمیری
رحمة اللہ علیہ جیسے عالَمِ اسلام کے محدثِ کبیر اور علاّمة
العصر فرماتے تھے، کہ بعض مواقع پر امام بخاری رحمة اللہ علیہ
کی صحیح مراد پر اب تک رسائی نہیں ہوسکی، جو کچھ
شارحین لکھتے ہیں، وہ تخمینات وگمانات ہیں۔
صحیح
بخاری کی آخری کتاب
”صحیح
بخاری“ کا یہ آخری باب ہے۔ اس باب کی کتاب
کونسی ہے؟ بالفاظِ دیگر ”صحیح بخاری“ کی آخری
کتاب کونسی ہے؟ اس سلسلہ میں دورائیں ہیں:
(۱) حضرت
شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب نوراللہ مرقدہ کی رائے
یہ ہے، کہ آخری کتاب ”کتاب الاعتصام بالکتاب والسنة“ ہے۔ ”بدء الوحی“ سے کتاب کا آغاز ہے، اور ”کتاب الاعتصام“ پر اختتام
ہے۔ ”کتاب التوحید والرد
علی الجہمیة وغیرہم“ کوئی
مستقل کتاب نہیں؛ بلکہ یہ ”کتاب الاعتصام بالکتاب والسنة“ کا تتمہ وتکملہ ہے، کیوں کہ امام بخاری رحمة اللہ علیہ
کی عادت یہ ہے، کہ وہ اضداد کا ذکر بھی کرتے ہیں،
اسی لیے ”کتاب الایمان“ میں ”کفردون کفر“، ”المعاصی من
أمرالجاہلیة“، ”ظلم دون ظلم“ اور ”علامة المنافق“ جیسے ابواب الکفر ذکر کیے ہیں، ”کتاب العلم“ میں ”رفع العلم وظہور الجہل“ کا باب ذکر کیا ہے، ”کتاب الاستسقاء“ میں
قحط سالی کی بددعا کا باب ذکر کیا ہے، وغیرہ
وغیرہ۔ جب ابواب البدعة، ”کتاب الاعتصام بالکتاب والسنة“ کے اضداد میں سے ہیں، تو امام بخاری رحمة اللہ علیہ
نے اپنی عادتِ مستمرہ کے مطابق کتاب الاعتصام کے بعد ان کو ذکر
کیا۔ چونکہ ابواب البدعة زیادہ تھے، اس لیے کتاب کا عنوان
قائم کرکے کہہ دیا: ”کتاب الرد علی الجہمیة وغیرہم“․
اس اعتبار سے امام
بخاری رحمة اللہ علیہ نے وحی سے اپنی کتاب کو شروع
فرمایا، گویا کتاب اللہ سے آغاز فرمایا، اور کتاب اللہ اور سنت
رسول اللہ صلى الله عليه وسلم جو کتاب اللہ کا بیان و شرح ہے، ان کو
مضبوطی سے تھامنے پر اپنی کتاب کو ختم فرمایا۔ فنعمت البدایة ونعمت
النہایة․
(۲) عامة
الشراح کی رائے یہ ہے، کہ ”صحیح بخاری“ کی
آخری کتاب ”کتاب التوحید“ ہے۔ یعنی کتاب
التوحید ایک مستقل کتاب ہے۔ کتاب الاعتصام کا تکملہ نہیں
ہے۔
یہاں یہ
ملحوظ رہے، کہ اس کتاب - عنوان - کے لفظ میں نسخوں کا اختلاف ہے: (۱)
”کتاب التوحید“․ نسفی اور حماد بن شاکر کے نسخوں میں اور
فِرَبْری سے نقل کرنے والے اکثر رُواة نے اسی طرح روایت
کیا ہے۔ (۲) مستملی نے کتاب التوحید کے بعد والرد
علی الجہمیة وغیرہم کا اضافہ نقل کیاہے۔
یعنی پورا عنوان اس طرح ہے: ”کتاب الوحید والرد علی
الجہمیة وغیرہم“․(۳) ابن بطال
اور ابن التین رحمہما اللہ نے ”کتاب رد الجہمیة وغیرہم
التوحید“ نقل کیاہے؛ البتہ ”المکتبة الازہریة“ کے نسخہ شرح ابن
بطال میں عنوان مستملی کی طرح ہے۔
کتاب التوحید
آخر میں لانے کی وجوہات
امام بخاری
رحمة اللہ علیہ نے عجیب وغریب صنیع اور طریقہ
اختیار فرمایا ہے، کہ ”کتاب التوحید“ کوآخر میں لائے
ہیں۔ ان کے پیش نظر اس میں کیااسباب ووجوہ،
کیا حِکم ومصالح اور کیا نِکات ولطائف ہوں گے، اللہ
تعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں۔ حضرات علماء کرام کے
کلام سے مستفاد چند وجوہ ذکر کرتا ہوں:
(۱)․․․․ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمة اللہ علیہ کے
شیخ: شیخ الاسلام ابوحفص عمر البُلقینی رحمة اللہ
علیہ فرماتے ہیں، کہ انسان کی عزت وآبرو کی حفاظت اور
عذاب سے حفاظت کے لیے اگر کوئی چیز اصلُ الاصول اور بنیاد
ہے، اولاً بھی اورآخراً بھی، دنیا میں بھی اور عقبیٰ
میں بھی، تو وہ ”توحید“ ہے۔ گویا عصمت و تحفظ کا
نقطئہ آغاز بھی توحید ہے، اور نقطئہ اختتام بھی
توحیدہے۔ اس لیے ”کتاب التوحید“ کوآخر میں لائے،
اور اس پر اپنی کتاب کو ختم فرمایا۔
(۲)․․․․ دین کی اساس اور بنیاد ”ایمان“
ہے، اس لیے امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے اپنی کتاب کے
آغاز میں ”کتاب الایمان“ کو رکھا۔ (اورچوں کہ ایمان
کی بنیاد وحی پر ہے، اس لیے ”بدء الوحی“ کو مقدم
کیا) اور ”کتاب الایمان“ میں دو انداز سے گفتگو ہوسکتی تھی،
ایک تو ایجابی پہلو سے، اور دوسرے سلبی پہلو سے۔
ایجابی پہلو سے جوکلام کرنا تھا، وہ ”بدء الوحی“ کے بعد ”کتاب
الاِیمان“ میں کرچکے۔ اب یہاں سلبی پہلو سے کلام
کررہے ہیں، کہ دیکھو! فِرَقِ باطلہ کے عقائد یہ ہیں، ان
کے عقائد سے اپنے آپ کو بچاتے رہنا۔ تو آخر میں بھی دین
کی اساس ”ایمان“ ہی کا ذکر فرمارہے ہیں، لیکن
سلبی پہلو سے۔
(۳) ․․․․ نجات کا مدار توحید پر ہے، اس لیے ”کتاب
التوحید“ کو آخر میں لائے۔
(۴)․․․․ احکام سب کے سب کتاب وسنت کے محتاج ہیں، اس
لیے امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے ”الاعتصام بالکتاب والسنة“ کا
عنوان قائم فرمایا تھا، اوراس کے ذیل میں کتاب وسنت سے استنباط
واجتہاد کے احکام اور اختلاف کی کراہت کا ذکر کیا تھا۔ اور قرآن
وسنت سے استنباط کبھی موجبِ رُشد وہدایت ہوتا ہے، اور کبھی
موجبِ ضلالت وگمراہی۔ چناں چہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے
ہیں: ﴿یضل بہ
کثیرا ویہدی بہ کثیرا﴾․ (البقرة:۲۶) ”اللہ تعالیٰ اس سے بہتوں کو گمراہ کرتے ہیں، اور اس سے
بہتوں کو ہدایت کرتے ہیں۔“ اس لیے امام بخاری رحمة
اللہ علیہ نے استنباطِ ضال سے احتراز کے لیے ”الرد علی
الجہمیة وغیرہم“ کا ترجمہ منعقد کیا، اور یہ ثابت
فرمایا، کہ اللہ تعالیٰ کی توحید کے یہ
معنی ومطلب اخذ کرنا، کہ صرف اس کی ذات کو مانا جائے، اور اس کی
صفات کو تسلیم نہ کیا جائے، سراسر غلط اور گمراہی ہے؛ بلکہ
توحید کا مطلب یہ ہے، کہ اللہ کی ذات کو ایک مانا جائے،
اور اس کی صفات کو تسلیم کیا جائے، یہی راہِ
ہدایت ہے، اور یہی اہل سنت والجماعت کی توحید
ہے۔
اس سے یہ
بھی معلوم ہوگیا، کہ ”الرد علی الجہمیة“ اور ”کتاب
التوحید“ یہ دونوں عنوان دیکھنے میں متباین سے نظر
آتے ہیں، لیکن درحقیقت دونوں کا حاصل ایک ہے، اس
لیے کہ ”کتاب التوحید“ کے عنوان سے اہل سنت والجماعت کی
توحید ثابت ہوگی، تو ذات کی وحدت کے ساتھ صفات خود بخود ثابت
ہوں گی۔ اور جب صفات کا ثبوت ہوگا، تو منکرینِ صفات کی
تردید ہوجائے گی، اور فرقِ باطلہ کی توحید مسترد ہوجائے
گی، یہی ”الرد علی الجہمیة وغیرہم“ کے عنوان
کا حاصل ہے۔
باب مذکور کی
کتاب التوحید کے ساتھ وجوہِ مناسبت
عامّة الشراح کے قول
پر ”کتاب التوحید“ آخری کتاب ہے، اور توحید کا مقصود تو ذات و
صفات کو بیان کرنا ہے، تو اس آخری باب - باب قول اللّٰہ تعالیٰ ونضع
الموازین القسط لیوم القیامة - کی جس میں وزنِ اعمال کا ذکر ہے، ”کتاب التوحید“ کے ساتھ
کیا مناسبت ہے؟
(۱) ․․․․ صاحب الخیرالجاری شیخ ابویوسف
یعقوب لاہوری رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں ،کہ ”کتاب
التوحید“ کا عنوان ایسا ہے، جیسا کہ متکلمین کے
یہاں ”الٰہیات“ کا عنوان ہوتا ہے۔ متکلمین
الٰہیات کا عنوان قائم کرتے ہیں، جس میں اللہ کے وجود اور
ذات وصفات ہی سے بحث ہونی چاہیے تھی، لیکن اس
میں ذات، صفات، نبوّات، خلقِ افعال اور وزنِ اعمال کے مسائل ذکر کرتے
ہیں۔ امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے ٹھیک اسی
طرح کیا ہے۔
محدث العصر حضرت
مولانا محمد یونس صاحب جونپوری دامت برکاتہم فرماتے ہیں، کہ
یہ توجیہ میرے دل کو نہیں لگتی، کیوں کہ
الٰہیات کے عنوان کے تحت صرف یہی چند مسائل ذکر
نہیں کیے جاتے؛ بلکہ عقائد کے تمام بنیادی مسائل ذکر
کیے جاتے ہیں۔ نیز صاحب الخیر الجاری نے جس
باب کو نبوّات سے متعلق قرار دیا ہے، یعنی ”باب قول اللّٰہ
یا ایہا الرسول بلغ ما انزل الیک من ربک الخ“ (صحیح بخاری،ص:۱۱۲۳،
ج:۲) اس میں تو امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے تلاوت ومتلو
کے فرق کو واضح کیاہے۔
(۲)․․․․ محدث العصر حضرت مولانا محمد یونس صاحب مدظلہم
فرماتے ہیں ،کہ ”کتاب التوحد“ میں امام بخاری رحمة اللہ
علیہ نے ذات وصفات کے متعلق بیان فرمایا ہے، اور اللہ
تعالیٰ کی صفات دو قسم کی ہیں: (۱) صفاتِ
ذات۔ اور (۲) صفاتِ افعال۔ اشعریین کے نزدیک
صفاتِ ذات وہ صفات کہلاتی ہیں، جن سے اللہ تعالیٰ ازل
وابد میں متصف ہیں، اور وہ سات صفات ہیں: حیاة، علم،
قدرة، ارادہ، سمع، بصر اور کلام۔ اور صفاتِ افعال وہ صفات کہلاتی
ہیں، جن سے اللہ تعالیٰ ازل میں تو متصف نہیں، ابد
میں متصف ہیں۔ اور یہ اصلاً صفات نہیں ہیں؛
بلکہ قدرت وارادہ جو صفاتِ ذات میں سے ہیں، ان کے متعلقات وشئون
ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی صفت قدرت اور صفت ارادہ کا
تعلق جب کسی چیز سے ہوتا ہے، تو اس تعلق کے بعد اللہ
تعالیٰ کے لیے ایک صفت ظاہر ہوتی ہے، جیسے
ترزیق سے تعلق ہو، تو اللہ تعالیٰ کے لیے صفت رازق ورزّاق
ظاہر ہوگی۔ تخلیق سے تعلق ہو، تو صفت خالق وخلاّق ظاہر
ہوگی۔ ماتریدیہ کہتے ہیں، کہ صفاتِ ذات وہ
ہیں، جن سے اللہ تعالیٰ متصف ہیں، اور ان کی اضداد
سے متصف نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ صفت حیاة سے
متصف ہیں: حیّ ہیں، موت سے متصف نہیں: میّت
نہیں۔ علم سے متصف ہیں، جہل سے متصف نہیں۔
قدیر ہیں، عاجز نہیں۔مرید ہیں، مسلوب الارادہ
نہیں۔ سمیع ہیں، اصم نہیں۔ بصیر
ہیں، اعمیٰ نہیں۔ متکلم ہیں، اخرس
نہیں۔ اور صفاتِ افعال وہ صفات ہیں، جن سے اللہ
تعالیٰ متصف ہیں، اور ان کی اضداد سے بھی متصف
ہیں۔ اللہ تعالیٰ معطی ہیں، تو مانع
بھی ہیں۔ محی ہیں، تو ممیت بھی
ہیں۔ نافع ہیں، تو ضارّ بھی ہیں وغیرہ۔
امام بخاری
رحمة اللہ علیہ نے ”کتاب التوحید“ میں صفاتِ ذات کی طرح
صفاتِ افعال کو بھی بیان کیا ہے، اور وزنِ اعمال صفاتِ افعال
میں سے ہے، اس طرح اِس باب کی ”کتاب التوحید“ کے ساتھ مناسبت
ہوگئی۔
(۳) ․․․․ شیخ ابن القیم اور علامہ انور شاہ
کشمیری رحمہما اللہ فرماتے ہیں، کہ امام بخاری رحمة اللہ
علیہ نے اس باب میں تلاوت اور متلو کے فرق کی طرف اشارہ
کیا ہے۔ ماقبل میں عرض کیاگیا، کہ امام بخاری
رحمة اللہ علیہ نے ”کتاب التوحید“ میں اللہ تعالیٰ
کی ذات وصفات کا ذکر فرمایا ہے، اور خاص طور سے صفتِ کلام کے متعلق تو
متعدد ابواب قائم کیے ہیں۔ کلام کے مسائل میں ایک
مسئلہ یہ ہے، کہ تلاوت ومتلو میں فرق ہے یا نہیں؟
یہی وہ مسئلہ ہے، جس کی وجہ سے حضرت امام بخاری رحمة اللہ
علیہ کو زبردست ابتلاء وآزمائش پیش آئی۔
پہلے معتزلہ نے
یہ نظریہ چلایا، کہ کلامِ الٰہی مخلوق ہے: حادث
ہے۔ اس فتنہ کے مقابلے کے لیے اللہ تعالیٰ نے امام احمد
بن حنبل رحمة اللہ علیہ کو منتخب فرمایا۔ امام شافعی رحمة
اللہ علیہ کو خواب میں رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی
زیارت ہوئی۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: بشّراحمد علٰی
بلوی تصیبہ․ ”احمد کو (جنت کی) بشارت دے دو اس آزمائش کے ساتھ، جو انہیں پہنچے
گی۔“ امام شافعی رحمة اللہ علیہ نے اپنے تلامذہ سے
فرمایا، کہ امام احمد کے پاس یہ بشارت کون لے کر جائے گا؟ امام
طحاوی رحمہ اللہ کے ماموں امام اسماعیل مزنی رحمہ اللہ نے عرض
کیا، کہ میں لے کر جاؤں گا۔ چنانچہ امام مزنی گئے۔
بعض حضرات نے لکھا ہے، کہ ربیع بن سلیمان مُرادی رحمہ اللہ گئے
تھے، لیکن یہ صحیح نہیں ہے، جیسا کہ علامہ
ذہبی رحمة اللہ علیہ نے ”سِیَر أعلام النُّبلاء“ میں اس
کی تصریح کی ہے۔ امام مزنی رحمة اللہ علیہ نے
جاکر جب امام احمد بن حنبل رحمة اللہ کو یہ بشارت سنائی، تو انھوں نے
سن کر فرمایا، کہ شاید آپ صلى الله عليه وسلم نے مجھ میں ضعف
وکمزوری کو محسوس فرمایا ہے۔ گویا آپ نے برائے
تقویت و تسلی یہ بات ارشاد فرمائی ہے۔ عزوئہ تبوک
سے متعلق حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کی حدیث پر عمل کرتے
ہوئے بشارت لے کر آنے والے امام مزنی کو اپنا کُرتا اتار کر دے
دیا۔ کرتا لے کر جب وہ واپس آئے، تو امام شافعی رحمة اللہ
علیہ نے فرمایا، کہ کرتا تو تمہارا حق ہے، وہ تو میں تم سے طلب
نہیں کرتا، نہیں مانگتا، لیکن اتنا کرو، کہ اس کرتے کو
پانی میں بھگوکر نچوڑو، اور وہ پانی مجھے دے دو، وہ عُصارہ مجھے
دے دو۔ عُصارہ دینے پر امام شافعی رحمة اللہ علیہ نے اس
میں سے کچھ نوش فرمایا، اور کچھ اپنے بدن پر مَلا۔
بہرحال اس فتنہ کے
مقابلے کے لیے امام اہل السنة: امام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ
اٹھے، حق کی چٹان بن کر سامنے آئے، اور بڑی استقامت اور پامردی
کا مظاہرہ کیا۔ خلقِ قرآن کے قائل ہونے سے انکار پر معتصم بن
الرشید نے آپ کو کئی کوڑے لگوائے۔ امام احمد فرماتے ہیں،
کہ جس دن مجھے کوڑے مارنے کے لیے نکالاگیا تھا، تو میں نے دیکھا،
کہ پیچھے سے ایک آدمی میرے کپڑے کھینچ رہا ہے،
میں نے مڑکر دیکھا، تو اس نے پوچھا: آپ مجھے جانتے ہیں؟
میں نے کہا: نہیں۔کہنے لگا: میں مشہور جیب تراش اور
ڈاکو ابوالہیثم ہوں، سرکاری ریکارڈ میں یہ بات
محفوظ ہے، کہ مجھے مختلف اوقات میں اٹھارہ ہزار کوڑے مارے گئے ہیں،
لیکن میں نے حقیر وذلیل دنیا کی خاطر
شیطان کی اطاعت پر پوری استقامت کا مظاہرہ کیا، آپ تو
دین حق کے ایک بلندترین مقصد کے لیے قید ہوئے
ہیں، اس لیے کوڑے کھاتے ہوئے دین کی خاطر رحمن کی
اطاعت پر صبر واستقامت سے کام لیجئے گا۔ اس کی اس بات سے امام
احمد رحمة اللہ علیہ کا حوصلہ مزید مضبوط ہوا۔
محمد بن
اسماعیل کہتے ہیں، کہ ”میں نے سُنا ہے، کہ امام احمد
کوایسے کوڑے لگائے گئے، کہ اگر ایک کوڑا ہاتھی پر پڑتا، تو
چیخ مارکر بھاگتا۔“ ایک تازہ جلاّد پوری قوت سے صرف دو
کوڑے لگاتا تھا، پھر دوسرا جلاّد بلایا جاتا تھا۔ امام احمدہر کوڑے پر
فرماتے تھے: اعطونی شیئا من
کتاب اللّٰہ او سنة رسولہ حتی اقول بہ․ میرے سامنے
اللہ تعالیٰ کی کتاب یا اس کے رسول صلى الله عليه وسلم
کی سنت سے کچھ پیش کرو، تو میں اس کومان لوں، اس کا قائل
ہوجاؤں۔“ اٹھائیس مہینے تک آپ کو حبس و قید میں
رکھاگیا، لیکن یہ تازیانے اور قید وبند آپ کے پائے
استقامت کو متزلزل نہ کرسکے۔
امام احمد بن حنبل
رحمة اللہ علیہ کی بے نظیر ثابت قدمی اور استقامت سے
یہ فتنہ تو ختم ہوگیا، لیکن اس کے بعد غلو کا دور شروع ہوا، اور
دوسرے فتنہ نے سراٹھایا۔ بعضوں نے یہ کہنا شروع کردیا، کہ
جو متلو ہے وہی تلاوت ہے۔ متلو جیسے غیرمخلوق ہے:
قدیم ہے، اسی طرح انسان جب قرآن کی تلاوت کرتا ہے، تو اس
کی زبان وحلق سے نکلنے والی یہ آواز اور یہ تلاوت
بھی غیرمخلوق ہے: قدیم ہے۔ کلام اللہ جس کاغذ پر لکھا
جائے، اور جس روشنائی سے لکھا جائے، لکھے جانے کے بعد وہ کاغذ اور
روشنائی بھی قدیم ہیں: غیرمخلوق ہیں۔اس
فتنہ کے مقابلے کے لیے امام بخاری رحمة اللہ علیہ میدانِ
عمل میںآ ئے اوراس کے لیے مشقتوں کو برداشت کیا، حتی کہ
وطن سے بے وطن ہوئے، اور وطن سے دور جان جاں آفریں کے سپرد
کردی۔ امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے اس حقیقت کو
واضح کیا، کھولا، اور بتایا، کہ متلوتو کلام الٰہی ہے،اور
تلاوت پڑھنے والے کا فعل ہے، جو متلو پر وارد ہوتا ہے۔ دیکھئے!
یہ کتاب ”صحیح بخاری“ ہے، اور ایک میرا اور آپ کا
پڑھنا ہے۔ میرا اور آپ کا پڑھنا ہمارا فعل ہے، اور ”صحیح
بخاری“ امام بخاری کی کتاب ہے، تو پھرکلامِ الٰہی
کے مسئلہ میں کیسے کوئی یہ کہہ سکتا ہے، کہ جو تلاوت ہے،
وہی متلو ہے؟ یا جو متلو ہے وہی تلاوت ہے؟ لہٰذا اس کا
قائل ہونا پڑے گا، اور یہ تسلیم کرنا ہوگا، کہ متلوتو اللہ
تعالیٰ کا کلام ہے، اور تلاوت ہمارا فعل ہے: تلاوت کرنے والے کا فعل
ہے۔ متلوتو قدیم ہے: غیرمخلوق ہے، لیکن تلاوت حادث ہے:
مخلوق ہے۔
امام بخاری
رحمة اللہ علیہ نے تلاوت اور متلو کے فرق کو ثابت کرنے کے لیے ”کتاب
التوحید“ کے آخر میں کئی ابواب قائم کیے ہیں۔
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمة اللہ علیہ کی رائے یہ ہے، کہ
امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے اس مسئلہ کا آغاز ”باب قول اللّٰہ فلا تجعلوا للّٰہ اندادا“․ (ص:۱۱۲۱، ج:۲) سے کیا
ہے۔ حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد یونس صاحب مدظلہم
کی رائے یہ ہے ،کہ اس سے ایک باب قبل ”باب ذکر اللّٰہ بالامر وذکر العباد بالدعاء والتضرع
والرسالة والابلاغ“ سے کیا ہے،اور آخرِ کتاب
تک یہی مسئلہ ذکر فرمایاہے۔
شیخ ابن
القیم اور علامہ انورشاہ کشمیری رحمہما اللہ فرماتے ہیں،
کہ اس آخری باب میں بھی امام بخاری رحمة اللہ علیہ
نے تلاوت و متلو اور وارد ومَوْرِد کے فرق کی طرف اشارہ فرمایا
ہے۔ ظاہر ہے، کہ قیامت کے دن بندوں کے اعمال کے لیے میزان
قائم کی جائے گی، اور بندوں کے اعمال تولے جائیں گے، اور بندوں
کے اعمال میں تلاوت بھی داخل ہے، لہٰذا تلاوت کا بھی وزن
ہوگا۔ متلو اور مورِد جو اللہ کا کلام ہے، وہ نہیں تولاجائے گا۔
(۴)․․․․ علامہ کرمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں، کہ امام
بخاری رحمہ اللہ نے ”کتاب التوحید“ میں جن صفات ومسائل سے بحث
کی ہے، ان میں صفتِ کلام بھی ہے۔ اور اسی صفتِ کلام
اور کلام اللہ کے مباحث پر اس کتاب کو ختم فرمایا ہے، اس لیے کہ
وہی مدارِ وحی ہے، اوراسی سے احکام وشرائع ثابت ہوتے ہیں،
اسی لیے ”بدء الوحی“ سے کتاب کا آغاز کیا تھا۔ اور
جس سے آغاز کیا، اسی پر نہایت واختتام بھی کررہے
ہیں۔ لیکن یہ باب مقصود بالذات نہیں ہے؛ بلکہ کلامِ
الٰہی کی بحث پر مشتمل آخری مقصود بالذات باب ”باب قرائة الفاجر
والمنافق الخ“ ہے۔ چوں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے مجلس کے
آخر میں تسبیح وتحمید کی ترغیب دی ہے، اس
لیے امام بخاری رحمة اللہ علیہ اپنی کتاب کو مجلس علم
کی طرح قرار دے کر یہ آخری باب ”باب قول اللّٰہ تعالی ونضع الموازین
القسط لیوم القیامة“ اس ارادہ سے لائے
ہیں، کہ آخر کلام تسبیح و تحمید ہو، جیساکہ اولِ کتاب
میں حدیث اِنما الأعمال بالنیات بیانِ اخلاص کے لیے
لائے تھے۔
(۵) ․․․․ ”کتاب التوحید“ کے ساتھ عنوان میں ”الرد
علی الجہمیة“ کے الفاظ ہیں، اور یہ باب وزنِ اعمال کے
منکرین کی تردید کے لیے ہے۔ چناں چہ حضرت شیخ
الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب نوراللہ مرقدہ فرماتے ہیں، کہ
ظاہر یہ ہے، کہ یہ باب معتزلہ کے رد کے لیے ہے، کیوں کہ
معتزلہ نے میزان کا انکار کیا ہے۔ حافظ ابن حجرعسقلانی
رحمة اللہ علیہ کے کلام کے ظاہر سے بھی غرضِ باب یہی
معلوم ہوتی ہے۔
اس پر اشکال یہ
ہے، کہ اس اعتبار سے کتاب اور باب میں مناسبت نہیں ہے، کیوں کہ
کتاب کا عنوان جہمیہ کی تردید کا تقاضہ کرتا ہے؛ حالانکہ
جہمیہ وزنِ اعمال کے منکر نہیں؛ بلکہ معتزلہ منکر ہیں۔ اس
کے تین جوابات ہیں:
(۱) امام شمس
الدین محمد بن احمد حنبلی سَفّارِینی نابلسی رحمہ
اللہ کے کلام سے معلوم ہوتا ہے، کہ معتزلہ کو بھی جہمی کہا جاتا
ہے۔ معتزلہ، نجّاریہ، ضراریہ وغیرہ مختلف فرقے پوری
طرح جہم بن صفوان کے ہم عقیدہ اور ہم خیال نہیں ہیں، ان
کے مسلک اور نظریے جُدا جُدا ہیں، مگر چوں کہ کسی نہ کسی
درجہ میں عقیدئہ سلف سے ہٹے ہوئے ہیں،اور جہم کے قول کی
طرف مائل ہیں، لہٰذا اِن سب کو جہمی کہا جاتا ہے۔
(۲) علامہ
سیّد محمد زاہد الکوثری رحمة اللہ علیہ نے تاریخ سے ثابت
کیا ہے، کہ جہمیہ میں سے بھی بعض لوگ وزنِ اعمال کے منکر
ہیں۔اور امام بخاری رحمة اللہ علیہ بڑے وسیع النظر
ہیں۔
(۳) یہ
اشکال اس صورت میں ہوتا ہے، جبکہ کتاب کے عنوان میں صرف ”الرد
علی الجہمیة“ کے الفاظ ہوں، جیساکہ ہمارے سامنے موجود ہندوپاک
کے مطبوعہ ”صحیح بخاری“ کے حاشیہ میں ایک نسخہ سے
منقول ہے، لیکن باقی نسخوں میں ”الرد علی الجہمیة“
کے ساتھ ”وغیرہم“ کا لفظ بھی ہے۔ اس اعتبار سے صرف جہمیہ
کی تردید مقصود نہیں؛ بلکہ معتزلہ اور قدریہ کی
تردید بھی مقصود ہے۔ اب کوئی اشکال نہیں، اور باب
کی کتاب کے ساتھ مناسبت ظاہر ہے۔
اس باب کو آخر
میں ذکرکرنے کی وجوہات
امام بخاری
رحمة اللہ علیہ نے یہ باب کتاب کے آخر میں کیوں رکھا؟
حضرات علماءِ عظام سے منقول اس کی چند وجوہ ذکر کرتا ہوں:
(۱) اس باب
میں وزنِ اعمال کا ذکر ہے، اور وزنِ اعمال کا معاملہ آخرت میں
پیش آنے والا ہے، اس لیے اس کو آخر میں رکھا۔
(۲) علامہ
بُلقینی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں، کہ وہ آخری
معاملہ جس کے ذریعے کامیاب کا ناکام سے امتیاز ہوگا،
میزانِ عمل کا ثقیل وخفیف ہونا ہے، اس لیے اس کوآخر
میں رکھا۔ یا یوں کہیے، کہ وزنِ اعمال انسانی
مساعی کا آخری نتیجہ اور تمام شرائع کی غایت
الغایات ہے۔ یا کہیے کہ عمل انسانی کے ساتھ جو
آخری معاملہ ہوگا، وہ تولنے کا ہوگا، اس لیے اس کوآخر میں
رکھا۔
(۳) محدث العصر
حضرت مولانا محمد یونس صاحب جونپوری دامت برکاتہم فرماتے ہیں،
کہ انسانی طبیعت کا یہ خاصہ ہے، کہ جو چیز آخر میں
ذکر کی جاتی ہے، وہ ذہن نشین ہوجاتی ہے۔ اسی
لیے ماہر مقررین کا دستور ہے، کہ جب وہ طویل تقریر کرتے
ہیں، توآخر میں اپنی تقریر کے مرکزی مضامین
کو اجمالاً ذکر کردیتے ہیں، تاکہ اس اجمال کے ضمن میں ماقبل کی
ساری تفصیلات ضم ہوکر ذہن میں مستحضر ہوجائے۔اور جب اجمال
مستحضر رہے گا، تو تفصیل کی طرف ذہن خود بخود منتقل
ہوجائیگا۔
حدیث
جبریل میں بھی آپ نے پڑھ لیا ہے، کہ رسول اللہ صلى الله
عليه وسلم کی آخرِ حیاتِ مبارکہ میں حضرت جبریل
علیہ السلام حاضر خدمت ہوئے تھے، تاکہ تیئس سال متفرق طورپر جو احکام
اورامورِ دین نازل ہوئے تھے، آپ کے سوالات اور رسول اللہ صلى الله عليه وسلم
کے جوابات سے مجلس واحد میں ان کی تقریر ہوجائے، استقرارِ
شریعت ہوجانے کے بعد اس کا خلاصہ اور نچوڑ حضرات صحابہٴ کرام
رضی اللہ عنہم کے سامنے آکر منضبط ہوجائے۔
تو امام بخاری
رحمة اللہ علیہ نے اس باب کو آخر میں رکھ کر قاریٴ کتاب
کو توجہ دلائی ہے، کہ دیکھ لو! قیامت کے دن تمہارے اعمال وزن
کیے جائیں گے، جس کی حسنات بھاری ہوں گی، وہ تو
فائز المرام اور کامیاب ہوگا، اس کو ایسی زندگی ملے
گی، جو خوشیوں ہی خوشیوں کی زندگی
ہوگی۔ اور جس کی سیئات بھاری ہوں گی، وہ خائب
وخاسر اور ناکام و نامراد ہوگا، وہ دردناک گڑھے میں ٹھکانہ پانے کا مستحق
ہوگا، اس دن کو یاد رکھنا چاہیے، اس کے لیے پہلے سے
تیاری کرنی چاہیے۔
وزنِ اعمال کے
بیان پر کتاب ختم کرنے کی وجوہ
امام بخاری
رحمة اللہ علیہ نے وضع میزان اوروزنِ اعمال کے بیان پر
اپنی کتاب کو ختم کرکے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے، کہ انھوں نے
اپنی اِس کتاب کو ایک ایسے میزان کے طور پر وضع کیا
ہے، کہ اس کی طرف رجوع کیا جائے گا۔ یعنی
احادیثِ صحیحہ کے لیے ایک میزان ومعیار کے
طور پر وضع کیا ہے۔ احادیث کی صحت معلوم کرنے کے
لیے اس میزان کا سہارا لیا جائے گا، اس کی طرف رجوع
کیا جائے گا۔
یہ بات حافظ
ابن حجر عسقلانی رحمة اللہ علیہ نے علاّمہ کرمانی رحمة اللہ
علیہ کے حوالہ سے ذکر کی ہے، لیکن داراحیاء التراث
العربی، بیروت کی مطبوعہ ”شرح الکرمانی“ (طبع ثانی)
میں یہ بات مذکور نہیں۔ واللہ تعالیٰ
اعلم۔
شیخ الاسلام
زکریا الانصاری رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں، کہ امام
بخاری رحمة اللہ علیہ نے اس امید پر وزنِ اعمال کے بیان
پر اپنی کتاب کو ختم فرمایا ہے، کہ ان کی کتاب بھی
قیامت کے دن وزنی اعمال میں سے ثابت ہوگی۔
بدء الوحی اور
بابِ آخر میں مناسبات
امام بخاری
رحمة اللہ علیہ نے وحی کے بیان کو اوّلِ کتاب میں رکھا،
اور وزنِ اعمال کے باب کو آخرِ کتاب میں رکھا، اس میں بھی نہ
معلوم کتنی حکمتیں اور مصلحتیں ہوں گی۔
علامہ انور شاہ
کشمیری رحمة اللہ علیہ وحی کو اوّلِ کتاب میں رکھنے
کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں، کہ بندے کا اپنے رب کے ساتھ
اوّل معاملہ وحی ہی سے قائم ہوتاہے، اس اعتبار سے یہ
ایمان واعمال کا مقدمہ ہے، اس لیے اس کو اولِ کتاب میں رکھا
ہے۔
اس پر بناء کرتے ہوئے
کہا جاسکتا ہے، کہ وزنِ اعمال کو آخرکتاب میں اس لیے رکھا، کہ عام
انسانوں کے اعمال پرمرتّب ہونے والی جزا وسزا کے لیے وزنِ اعمال مقدمہ
ہے۔ اس اعتبار سے اولِ کتاب اور آخرِ کتاب میں مناسبت ہے۔
بندہ کے خیال
میں ایک مناسبت یہ ہے، کہ امام بخاری رحمة اللہ
علیہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی احادیث صحیحہ کا
معتدبہ حصہ ایک خاص ترتیب کے ساتھ جمع کرنا چاہتے ہیں، اور ان
کا منبع وسرچشمہ وحیٴ الٰہی ہے، اس لیے وحی
کے بیان سے کتاب کا آغاز کیا۔ اور وحی کا اختتام حضرت
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث کے مطابق ﴿واتقوا یوما
ترجعون فیہ الی اللّٰہ ثم توفی کل نفس ما کسبت وہم
لایظلمون﴾ (البقرة:۲۸۱)
پر ہوا۔ جس میں اُس دن سے ڈرنے کا حکم دیاگیا ہے، جس
میں انسانوں کو اللہ تعالیٰ کی پیشی
میں لایا جائے گا، پھر ہر شخص کو اس کے کیے کا پورا پورا بدلہ
ملے گا، اور ان پر کسی قسم کا ظلم نہ ہوگا۔ اس لیے امام
بخاری رحمة اللہ علیہ نے آخری وحی سے مستفاد موقف ومحشر
کی آخری کارروائی وزنِ اعمال کو آخرِ کتاب میں
رکھاہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔
پہلی
حدیث اور آخری باب میں مناسبات
”صحیح
بخاری“ کی پہلی حدیث اور اِس آخری باب میں
مناسبت کے سلسلے میں بھی چند اقوال سن لیجیے:
(۱)․․․ علامہ سراج الدین بُلقینی رحمة اللہ
علیہ فرماتے ہیں، کہ امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے
حدیث اِنما الأعمال بالنیات سے جس کا تعلق دنیا سے ہے، کتاب کو
شروع فرمایا، اور انسان کے اعمال کے وزن پر ختم فرمایا (جس کا تعلق
آخرت سے ہے)، اس سے اس بات کی طرف اشارہ کیا، کہ اللہ
تعالیٰ اسی عمل کو قبول فرمائیں گے، اور میزانِ عمل
میں وہی اعمال ثقیل ہوں گے، جو خلوصِ نیت سے انجام
دیے گئے ہوں۔
(۲)․․․ علامہ ابوالحسن سندھی رحمة اللہ علیہ فرماتے
ہیں، کہ ہرعمل کا مبدأ اور اوّل نیت ہے اور ہر عمل کا آخر وزن ہے،
کیوں کہ وزن کے بعد توجزاہی ہے۔ تو عمل کے لیے تیار
کی جانے والی کتاب کی بدایت و نہایت میں عمل
کی بدایت ونہایت کو لائے ہیں۔ بدایت عمل
یعنی نیت کو بدایت کتاب میں لائے، اور نہایت
عمل یعنی وزن کو نہایت کتاب میں لائے۔
(۳)․․․ علامہ ابوالحسن سندھی رحمة اللہ علیہ فرماتے
ہیں، کہ حدیث انما الأعمال بالنیات میں حُسنِ نیت
کی طرف اشارہ تھا۔ اب مسائل توحید میں سے وزنِ اعمال پر
اپنی کتاب کو ختم فرمارہے ہیں، اس لیے کہ اعمال کا وزن: اس کا
ثقیل ہونا اور خفیف ہونا عامل کی نیت کے اعتبار سے ہے، تو
ان مسائل توحید میں بھی حسن نیت کی طرف ارشاد و
رہنمائی ہے، اس طرح بدایتاً ونہایتاً حسنِ نیت کی
مداومت کی طرف اشارہ فرمایاہے۔
(۴)․․․ مسیح الامت حضرت مولانا مسیح اللہ خاں صاحب
نوراللہ مرقدہ نے ”فضل الباری“ میں اس موضوع پر مختلف عناوین
وتعبیرات سے کلام کیاہے۔ میں ان کی ایک
تقریر ذکر کرتا ہوں:
حضرت مسیح
الامت نوراللہ مرقدہ فرماتے ہیں، کہ ہر عمل کا ایک مبدأ ہوتا ہے، اور
ایک منتہاء۔ مبدءِ اعمال نیت واخلاص ہے، اس کو اولِ کتاب میں
ذکر فرمایا۔ اور منتہاء اعمال ثمرات اور ان اعمال کے نتائج ہیں،
مگر ثمرات اور نتائج حسب اعمال ہوں گے۔ اور یہ اعمالِ حسنہ
وسیئہ کا تفاوت بندوں کے سامنے وزن سے ظاہر ہوگا، اس لیے وزنِ اعمال
کا ترجمہ قائم کرکے ثمراتِ اعمال اور ثمرات کا محل ومقام جوکہ آخر حیات
انسانی سے وابستہ ہے، آخر کتاب میں ذکر فرمایا۔ تو اولِ
اعمال کو اولِ کتاب میں اورآخر اعمال کو آخر کتاب میں ذکر
فرمایا۔
حدیث پر اکتفاء
نہ کرتے ہوئے آیت قرآنیہ کو بھی ذکر کرنے کی وجہ
ان
تمہیدی باتوں کے بعد اب ہم ترجمة الباب کی وضاحت کرتے
ہیں۔ فرماتے ہیں: باب قول اللّٰہ تعالٰی․
”صحیح
بخاری“ میں آپ نے دیکھا ہے، کہ امام بخاری رحمة اللہ
علیہ نے کئی ابواب میں باب کی مناسبت سے آیاتِ
قرآنیہ کو درج فرمایاہے، یا چندیاایک لفظ کو ذکر
کرکے آیات کی طرف اشارہ فرمایاہے۔ ”کتاب التوحید“
کے ابواب میں تو بطور خاص اس کا اہتمام والتزام فرمایا ہے۔
”کتاب التوحید“ کے ابواب میں اس اہتمام والتزام کی وجہ یہ
ہے، کہ امام بخاری رحمة اللہ علیہ کو ان ابواب میں اللہ
تعالیٰ کی توحید ذات کے اثبات کے ساتھ اس کی صفات
کو ثابت کرنا ہے، اور اس کا تعلق اعتقادیات کے ساتھ ہے، جن کے اثبات
میں قطعی دلیل درکار ہے، اس لیے امام بخاری رحمة
اللہ علیہ نے صفات کی احادیث کو ”کتاب التوحید“ کے متفرق
ابواب میں جمع فرمایا، تاکہ تواتر قدرِ مشترک ثابت ہوکر یہ
احادیث اخبارِ آحاد ہونے سے نکل جائیں،اور مفید ظن نہ رہتے ہوئے
مفید قطع ویقین ہوجائیں، پھر ہر باب میں قرآن
مجید کی آیت سے اس کو موٴید کیا۔ اس
اعتبار سے صفات باری تعالیٰ کا منکر قرآن وسنت دونوں کی
مخالفت کرنے والا قرار پائیگا۔
حقیقت یہ
ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جنتی صفاتِ مقدسہ ہیں، ان کا
ثبوت صرف احادیث سے نہیں؛ بلکہ کتاب اللہ سے بھی ہے۔ امام
ابن ابی حاتم رحمة اللہ علیہ نے ایک کتاب لکھی ہے، جس کا
نام ”کتاب الرد علی الجہمیة“ ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی
رحمة اللہ علیہ نے ”فتح الباری“ میں ”صحیح بخاری“
کی ”کتاب التوحید“ کی شرح وایضاح میں اُس کتاب سے
کافی استفادہ کیاہے۔ اُس کتاب میں امام ابن ابی
حاتم رحمة اللہ علیہ نے سند صحیح کے ساتھ نقل کیاہے، کہ امام
بخاری رحمة اللہ علیہ کے شیخ الشیوخ سلَّام بن ابی
مطیع کی مجلس میں صفاتِ باری کے منکر مُبتدعین
کاذکر ہوا، تو انھوں نے فرمایا، کہ صفاتِ الٰہیہ کے بیان
پر مشتمل احادیث کا انکار وہ کیسے کرسکیں گے؟ اللہ کی
قسم! حدیث پاک میں جس کسی صفت کا بیان ہے، ٹھیک
اسی طرح اس کا ذکر قرآن مجید میں ہے۔ اللہ
تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿ان اللّٰہ سمیع بصیر﴾․ (لقمان:۲۸)
﴿یحذرکم اللّٰہ نفسہ﴾ (آل عمران:۳۰)
﴿ما منعک ان تسجد لما خلقت بیدی﴾․ (صٓ:۷۵) ﴿وکلم اللّٰہ
موسٰی تکلیما﴾․
(النساء:۱۶۴) ﴿الرحمن علی العرش استوی﴾
(طہ:۵) وغیرہ۔ سلاّم بن ابی مطیع عصر سے
لے کر غروب تک صفاتِ باری پر مشتمل آیات تلاوت کرتے رہے۔
یہاں ضمناً
ایک بات کی طرف اشارہ کرتاچلوں، کہ یہاں برطانیہ
میں دیوبندی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والوں کا دوسرے مکاتب فکر
والوں سے سابقہ پڑتا رہتا ہے۔ ان میں سے بعض دیوبندیوں کو
زک دیتے رہتے ہیں، کہ تم لوگ صفات میں تاویل کرنے والے
ہو۔ لیکن آپ کومعلوم ہونا چاہیے، کہ ہمارے مرکز الاسانید
اور مسند الہند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی قدس سرہ کا نظریہ
یہ تھا، کہ قرآن وسنت میں جو صفات جس طرح آئی ہیں، ان کو
اسی طرح تسلیم کیا جائے، ان میں تاویل نہ کی
جائے۔ اور یہی نظریہ وعقیدہ علمائے دیوبند کے
سرخیل حجة الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی قدس سرہ کا
تھا، لہٰذا بلاکسی مرعوبیت کے دوٹوک کہیے، کہ ہم
دیوبندی بھی مسئلہٴ صفات میں بالکل سلف کے
عقیدے کے حامل ہیں۔
بہرحال وزنِ اعمال پر
دلالت کرنے والی حدیث پر اکتفاء نہ کرتے ہوئے امام بخاری رحمة
اللہ علیہ نے آیت قرآنیہ بھی یہاں ذکر فرمائی
ہے۔
قرآن مجید
میں اللہ تعالیٰ کا اپنے لیے صیغہٴ واحد اور
جمع کا استعمال فرمانا
﴿ونضع الموازین القسط لیوم
القیامة﴾․ ”اور قیامت کے روز ہم میزانِ عدل قائم کریں گے۔“
﴿ونضع﴾:
ہم رکھیں گے، ہم قائم کریں گے۔ یہاں اللہ
تعالیٰ نے اپنے لیے جمع کا صیغہ استعمال
فرمایاہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اپنے
لیے کہیں واحد متکلم کا صیغہ استعمال فرمایا ہے،
کہیں جمع کا۔ جس مقام پر رحمت وشفقت کا مضمون ہوتاہے، وہاں اللہ
تعالیٰ واحد متکلم کے ساتھ ارشاد فرماتے ہیں۔ جیسے
﴿الیوم اکملت لکم دینکم․․․﴾ (المائدة:۳) میں تکمیل دین وغیرہ کا
ذکر ہے، جو سراسر نعمت ہے، اس لیے ”اکملت“ وغیرہ بصیغہٴ
واحد متکلم آیا ہے۔ اور جہاں شان جلال واستغناء اور عظمت کا
بیان ہے، وہاں جمع کا صیغہ آیا ہے۔ جیسے یہاں
﴿ونضع الموازین․․․﴾ میں شان عظمت کا بیان ہے، اس لیے ”ونضع“
بصیغہٴ جمع متکلم آیاہے۔
صیغہٴ
خطاب میں اللہ تعالیٰ کے لیے صیغہٴ واحد
یا جمع؟
قرآن مجید
میں اللہ تعالیٰ کے لیے صیغہٴ خطاب میں
عامتاً صیغہٴ واحد استعمال ہوا ہے؛ البتہ ایک جگہ
بصیغہٴ جمع آیا ہے۔ موت کے وقت کافر کو جب آخرت کا
معاینہ ہونے لگتا ہے، اور وہاں کا عذاب سامنے آنے لگتا ہے،اس کی
حکایت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا، کہ جب ان
میں سے کسی کے سرپر موت آکھڑی ہوتی ہے اس وقت وہ کہتا ہے:
اے میرے رب! مجھ کو واپس بھیج دیجیے، یعنی
مجھ سے موت کو ٹال دیجیے اور پھر دنیا میں بھیج
دیجیے۔ ﴿حتی اذا جاء احدہم الموت قال رب
ارجعون﴾․
(الموٴمنون:۹۹) اس میں اللہ
تعالیٰ کو صیغہٴ جمع کے ساتھ خطاب ہے۔ اگرچہ اس
میں دوسرا احتمال بھی بیان کیاگیا ہے، کہ جمع سے
مراد تکرارِ فعل ہے۔ ربّ ارجع، ربّ ارجع․مگر تکرارِ
فعل کے لیے صیغہٴ جمع کا لانا خلافِ ظاہر ہے۔ اس
لیے ہمارے اکابر کا اردو تقریر وتحریر میں اللہ
تعالیٰ کے لیے صیغہٴ واحد کی طرح
صیغہٴ جمع کا استعمال صحیح ہے۔
سنئے! اللہ
تعالیٰ کا ادب سب سے زیادہ ضروری ہے، مگر پھر بھی
صیغہٴ واحد کا استعمال اللہ تعالیٰ شانہ کے لیے
خلافِ ادب نہیں، کیوں کہ عرف ہوگیا ہے۔ اور عرف میں
بھی اللہ تعالیٰ کے لیے صیغہٴ واحد غالباً اس
لیے اختیار کیاگیا، کہ اس میں توحید پر دلالت
زیادہ ہے، اور صیغہٴ جمع میں بھی توحید محفوظ
ہے لیکن اس کی صراحت نہیں؛ البتہ اس میں تعظیم
زیادہ ہے۔
دارالعلوم دیوبند
کے سب سے پہلے صدرالمدرسین حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب نانوتوی
رحمة اللہ علیہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے لیے
صیغہٴ جمع استعمال فرماتے تھے، مثلاً: ”اللہ تعالیٰ
یوں ارشاد فرماتے ہیں۔“ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف
علی صاحب تھانوی قدس سرہ فرماتے تھے، کہ مجھے اپنے استاذ حضرت
مولانامحمدیعقوب صاحب رحمة اللہ علیہ کی صحبت سے
صیغہٴ جمع کے استعمال کی عادت ہوگئی ہے۔ ویسے
جائز دونوں ہیں، مگر میں کسی ایک کو دوسرے پر ترجیح
نہیں دیتا، کیوں کہ ممکن ہے، کہ اپنے استاذ کی محبت
کی وجہ سے صیغہٴ جمع کو پسند کرتا ہوں۔
مسئلہٴ
میزان ووزنِ اعمال
﴿الموازین﴾
ایمان
بالمیزان ووزنِ اعمال پر ابن بطال مالکی رحمة اللہ علیہ نے اہلِ
سنت کا اجماع نقل کیاہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمة اللہ
علیہ نے ”فتح الباری“ میں نقل فرمایا ہے، کہ ابواسحاق
زَجّاج نے یہ اجماع نقل کیا ہے، لیکن یہ حضرت حافظ رحمة
اللہ علیہ کا وہم ہے۔ صحیح بات یہ ہے، کہ ابن بطال نے
اجماع نقل کیاہے، نہ کہ ابواسحاق زَجّاج نے۔ حافظ ابن حجر رحمة اللہ
علیہ نے ابن بطال کے کلام کو پڑھتے ہوئے چوں کہ آغاز ابواسحاق زَجّاج کے
کلام سے ہوا تھا، یہ سمجھ لیا کہ اجماع والی بات بھی
انہی کی ہے، حالاں کہ ایسا نہیں، وہ خود ابن بطال کا کلام
ہے۔ حافظ الدنیا، جبل العلم حافظ ابن حجر عسقلانی رحمة اللہ
علیہ کے اس قسم کے اوہام کے متعلق یہی کہا جائے گا کہ ”مِن کمالِ المرءِ اَنْ
تُعدَ سَقْطاتہ“․
قدریہ، بعض
جہمیہ اور قدماء معتزلہ میں سے ایک قوم نے وزنِ اعمال کا انکار
کیاہے۔ معتزلہ کے تیئس فرقے ہیں۔ ”اعتقادات فرق
المسلمین والمشرکین“ للرازی میں سترہ، ”الملل والنِّحل“
للشہرستانی میں مزید دو اور ”الفَرْق بین الفِرَق“
للبغدادی میں مزید چار فرقوں کا ذکر ہے، اس طرح مجموعہ
تیئس ہوا۔ وزنِ اعمال کے منکر معتزلہ کو ”وزنیہ“
کہاجاتاہے۔
ان میں سے
علاّف معتزلی اور بِشربن المعتمر معتزلی جیسے بعض نے وزنِ اعمال
کو عقلاً ممکن قرار دیا ہے، لیکن اس کے ثبوت و وقوع کا انکار
کیا ہے۔
اور دوسروں نے اس کو
محال قرار دیا ہے، اس لیے کہ:
(۱) ․․․ اعمال اعراض ہیں۔ اور ان کا حال یہ ہے،
کہ ادھر صدور ہوا اور ادھر ختم۔ فوراً فنا اور معدوم ہوجاتے
ہیں۔ موجود اور باقی نہیں رہتے۔ اور ان کا اعادہ
ناممکن ہے۔
(۲)․․․ اگر اعمال کا بقاء تسلیم کرلیں، یا ان
کے اعادہ کو ممکن مان لیں، تو اعراض ہونے کی وجہ سے ان کا وزن
نہیں ہوسکتا، کیوں کہ اعراض کا وزن ممتنع ہے، اس لیے کہ اعراض
کو ثقل یا خفّت کے ساتھ متصف نہیں کرسکتے۔
(۳)․․․ اگر اعمال کے وزن کے ممکن ہونے کو تسلیم بھی
کرلیں، تو وزن کا کوئی فائدہ نہیں، اس لیے کہ وزن سے
مقصود تفاوتِ اعمال کا علم ہے، اور اللہ تعالیٰ تو تفاوتِ اعمال سے
باخبر ہیں، اور جس میں فائدہ نہ ہو، اس کا انجام دینا
قبیح ہے، اور اللہ تعالیٰ فعلِ قبیح سے منزہ ہے۔
ازالہٴ وہم
یہاں ایک
تنبیہ ضروری معلوم ہوتی ہے، وہ یہ کہ بعض حضرات
خیال کرتے ہیں، کہ ہمارے زمانے میں نہ قدریہ ہیں،
نہ جہمیہ اور نہ ہی معتزلہ۔ تو پھر ان کے دلائل کا نقل ورد
کیا معنی رکھتے ہیں؟ یہ تو بے سود ہے، گڑے مردے اکھاڑنا
ہے۔
اس کا جواب یہ
ہے، کہ اولاً: علومِ دینیہ کے ہر طالب علم کے لیے اسلام کے
معارض نظریات سے باخبر رہنا ضروری ہے، خواہ وہ نظریات
قدیم ہوں یا جدید۔
اور ثانیاً:
یہ بات تو صحیح ہے، کہ معتزلہ، قدریہ اور جہمیہ
جیسے گمراہ اور باطل فرقے ان مخصوص ناموں کے ساتھ غالباً اب صفحہٴ
ہستی پر کہیں نہیں پائے جاتے، مگر یہ یاد رہے، کہ
عامتاً نظریات ایک بار پیداہوکر ختم نہیں ہوتے؛ بلکہ ان کی
شکلیں بدل جاتی ہیں، بنیادی خیالات
اپنی جگہ برقرار رہتے ہیں۔ آپ کو یادہوگا، کہ چند سال
پہلے یہیں برطانیہ میں عذابِ قبر کے انکار کی صدائے
بازگشت سنائی دی تھی۔ لہٰذا ممکن ہے، اور بسا ممکن
ہے، کہ ان گمراہ فرقوں کے نظریات ومعتقدات اِس وقت بھی کسی فرقے
میں پائے جاتے ہوں، جس کی کسی اورنام سے اپنی شناخت و
پہچان ہو۔ ضروری نہیں، کہ دورِ اوّل کے اصل فرقہٴ معتزلہ
یا قدریہ یا جہمیہ کی ساری ہی
خصوصیات بدرجہٴ اتم موجود ہوں، اور وہ سارے معتقدات آج بھی
اسی طرح بلاکم و کاست پائے جاتے ہوں؛ بلکہ مرورِ زمانہ کی وجہ سے ان
قدیم اور اصل فرقوں کے افکار ونظریات اور عقائد میں کمی
بیشی ہونا لازمی ہے۔ لہٰذا اس زمانے میں
بھی اُن فِرَقِ باطلہ کے دلائل اور ان کے جوابات سے واقفیت نہ صرف
یہ کہ بے سود نہیں؛ بلکہ لازم اور ضروری ہے۔
منکرینِ وزنِ
اعمال کے وجوہِ انکار کی خشتِ اوّل
قبل اس کے کہ ان کے
”اگرمگر“ کا تجزیہ کیا جائے، مناسب معلوم ہوتا ہے، کہ وجوہِ انکار
کی خشتِ اوّل کے متعلق ایک آدھ بات عرض کردی جائے۔ ان کے
”اگرمگر“ کی بنیادی وجہ ان کا نظریہٴ عقلی
استبداد اور جہاں عقل کام نہیں دے سکتی، وہاں اس سے کام لینا
ہے، حالاں کہ عقل کی بھی ایک حد ہے۔ دیکھیے!
آنکھ کی ایک قوت ہے، اور اس کی ایک حد ہے، اس سے آگے
دوربین لگانے کی ضرورت ہے۔ پیروں کی ایک قوت
ہے، جس سے آگے سواری سے مدد لینے کی ضرورت ہے۔ اسی
طرح ہاتھ، کان وغیرہ کا حال ہے۔ تو جب ہر قوت محدود ہے، تو عقل
کیسے محدود نہ ہوگی؟ ضرور ہوگی۔
حکیم الامت
حضرت تھانوی رحمة اللہ علیہ نے عقل کے متعلق بہت خوب مثال دی
ہے، فرماتے ہیں: عقل ایسی ہے، جیسے پہاڑ پر چڑھنے والے کے
لیے گھوڑا۔ اب تین قسم کے لوگ ہیں۔ ایک تو وہ
جو گھوڑے پر سوار ہوکر پہاڑ تک پہنچے، اور پھر پہاڑ پر بھی اسی پر
سوار ہوکر چڑھنے لگے، یہ غلطی پر ہیں۔ ضرور کسی
سیدھی چڑھائی پر سوار اور گھوڑا دونوں گریں گے۔
دوسرے وہ ہیں، جو یہ سمجھ کر کہ گھوڑا پہاڑ پر تو کام دیتا
ہی نہیں، تو اس سے عام راستہ پر بھی، ہموار سڑک پر بھی
کام لینے کی ضرورت نہیں، وہ گھر ہی سے پیدل چل
پڑے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ پہاڑ تک پہنچ کر تھک گئے، یہ
بھی پہاڑ پر نہ چڑھ سکے۔ تو ان دونوں کی رائے وروش غلط
تھی۔ پہلی جماعت نے گھوڑے کو ایسا باکار سمجھا، کہ
اخیر تک اُسی سے راستہ طے کرنا چاہا۔ اور دوسری جماعت نے
ایسا بے کار سمجھا، کہ پہاڑ تک بھی اُس سے کام نہ لیا۔
تیسری جماعت نے پہاڑ تک گھوڑے پر سواری کی، پھر پہاڑ پر
چڑھنے کے لیے کوئی اورانتظام کیا۔ انھوں نے یہ
خیال کیا، کہ گھوڑا پہاڑ تک تو کارآمد ہے اور پہاڑ پر چڑھنے کے
لیے بے کار، اس کے لیے کسی اور انتظام کی ضرورت ہے۔
یہی سوچ اور طرزِ عمل صحیح ہے۔
ٹھیک
یہی حال عقل کا ہے، کہ عقل سے بالکل کام نہ لینا بھی
حماقت ہے، اور اخیر تک کام لینا بھی غلطی ہے۔ ”حجة اللّٰہ
البالغة“ میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمة
اللہ علیہ نے یہ بحث کی ہے، کہ عقل کے مطابق کہاں تک چلا جاسکتا
ہے۔ بس عقل سے اتنا کام لینا چاہیے، کہ آدمی توحید
و رسالت کو سمجھے،اور کلام اللہ کا کلام اللہ ہونا معلوم کرلے، اس سے آگے عقل سے
کام نہ لینا چاہیے؛ بلکہ اب اللہ تعالیٰ اور اس کے سچے
رسول صلى الله عليه وسلم کے آگے گردن جھکادینی چاہیے۔ اب
آگے وحی سے کام لینا چاہیے۔ شیخ ابوطاہر
قزوینی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں، کہ عقل سے آخرت کے امور
نہیں؛ بلکہ دارِ تکلیف میں اوامر ونواہی کی
تفاصیل اور مصالح ومفاسدِ معاش کو معلوم کیا جاسکتا ہے اور بس۔
الغرض شریعت
میں تفریطِ عقل سے کام نہیں چلتا، نہ افراط سے کام چلتا ہے؛
بلکہ توسط کی ضرورت ہے، جس کا نام ”حکمت“ ہے۔ تفریط فی
العقل اگر مذموم ہے، تو افراط فی العقل بھی نہایت مضر ہے۔
اطبّاء نے بھی اس کو امراض میں سے شمار کیا ہے، کیوں کہ
افراطِ عقل کا نتیجہ اوہام و شکوک میں ابتلاء ہے، جس سے قلب ودماغ
دونوں ضعیف ہوجاتے ہیں، اسی لیے کہنے والے نے کیا
خوب کہا۔
آزمودم عقل دور
اندیش را * بعد
ازیں دوانہ سازم خویش را
میں نے دور
اندیش عقل کو آزمایا۔ بارہاایسا ہوا، کہ عقل نے کسی
فکر وخیال کو جنم دیا، کوئی رائے وراہ سُجھائی، اس وقت تو
ایسا محسوس ہوا، کہ عقل نے بڑی دور کی سوچی، اور اپنے دور
اندیش ہونے کا ثبوت دیا، لیکن آنے والے وقت نے بتایا، کہ
اس نے کیا کیا گل کھلائے۔ اس کے بعد میں نے اپنے آپ کو
دیوانہ بنایا، یعنی بلاچوں وچرا اتباع اور کامل اطاعت
اختیار کی۔
”فتح البیان“
میں کیاخوب لکھا ہے، کہ جنھوں نے میزان کا اس لیے انکار
کیا، کہ ان کی عقول نے اس کو قبول نہیں کیا، تو معلوم
ہونا چاہیے کہ ایسی قوم کی عقول نے اس کو قبول کیا
ہے، جن کی عقلیں ان انکار کرنے والوں کی عقلوں سے زیادہ
قوی تھیں، یعنی صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم،
تابعین اور اتباعِ تابعین رحمہم اللہ۔
منکرینِ وزن کے
دلائل کے جوابات
اب ہم وزنِ اعمال کے
منکرین کے دلائل کے تجزیے اور رد کی طرف آتے ہیں۔
منکرین
میں سے بعض نے وزنِ اعمال کو عقلاً ممکن ماننے کے بعد اسکے وقوع کا انکار
کیا ہے۔ اسکے متعلق تو یہی کہا جائیگا، کہ جب وزنِ
اعمال ممکن چیز ہے، اور اللہ تعالیٰ شانہ اور اسکے رسول صلى
الله عليه وسلم جیسے مخبرِ صادق نے اسکے وقوع کی خبر دی ہے، پھر
تولاریب اس کی تصدیق ضروری ہے، کیوں کہ اللہ
تعالیٰ سے بڑھ کر کس کی بات سچی ہوسکتی ہے؟ ﴿ومن اصدق من
اللّٰہ قیلا﴾․
(النساء:۱۲۲) ﴿ومن اصدق من اللّٰہ
حدیثا﴾․ (النساء:۸۷) اور رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے متعلق خود حق
تعالیٰ شانہ نے ارشاد فرمایا ہے: ﴿وما ینطق عن الہوی․ ان ہو الا وحی
یوحی﴾․ (النجم:۴)
گفتہٴ او
گفتہٴ اللہ بود گرچہ
از حلقوم عبداللہ بود
مصطفی ہرگز نہ
گفتے، تا نہ گفتے جبرئیل جبرئیل
ہرگز نہ گفتے، تانہ گفتے کردِگار
اللہ
تعالیٰ اور اس کے رسول صلى الله عليه وسلم کے وقوعِ وزن کی خبر
دینے کے بعد اس کا انکار سوائے ضلالت اور گمراہی کے کچھ
نہیں۔
منکرین
کی دوسری جماعت وزنِ اعمال کو محال قرار دیتی ہے، اس
لیے کہ یہ اعراض ہیں، اور باقی نہیں رہتے
ہیں۔ اس کے دو جواب ہیں:
(۱)․․․ پہلا جواب یہ ہے، کہ اعمال کیلئے بقاء نہ ہونے
کو ہم تسلیم نہیں کرتے۔ علامہ انور شاہ کشمیری رحمة
اللہ علیہ نے سائنس دانوں کی نئی تحقیق کا ”فیض
الباری“ میں ذکر فرمایا ہے، کہ ”ابتداءِ زمان سے جتنی
آوازیں صادر ہوئیں، نکلیں، وہ سب فضاء میں موجود
ہیں، ان میں سے کوئی بھی آواز فناء اور معدوم نہیں
ہوئی۔“ اس سے زبان کے عمل کا بقاء ثابت ہوا، تو یہ
دعویٰ ٹوٹ گیا، کہ اعمال کیلئے بقاء نہیں، اس
لیے کہ سالبہ کلیہ کی نقیض موجبہ جزئیہ ہے۔
اور قرآن مجید نے تو زبان کی قید کے بغیر مطلقاً اعمال کو
باقی قرار دیا ہے، ارشاد ہے: ﴿والبٰقیٰت الصٰلحٰت
خیر عند ربک ثوابا و خیر املا﴾․ (الکہف:۴۶) ”اور جو اعمالِ صالحہ باقی رہنے والے ہیں، وہ آپ کے رب کے
نزدیک ثواب کے اعتبار سے بھی ہزار درجہ بہتر ہے اور امید کے
اعتبار سے بھی ہزار درجہ بہتر ہے۔“
(۲) ․․․ دوسرا جواب صوفیہ کے اصول پر ہے، کہ اگر کوئی
چیز فنا ہوتی ہے، تو اس جیسی چیز تجدّدِ امثال کے
طور پر موجود رہتی ہے۔ اور جب اس جیسی چیز موجود
ہے، تو اس مثل کے وزن سے خود اُس چیز کا وزن معلوم ہوسکتا ہے۔
وزنِ اعمال کو محال
قرار دینے والوں نے کہا تھا، کہ اعمال کا بقاء یا امکانِ اعادہ
تسلیم کرنے کی صورت میں وزن نہ ہوسکنا اس لیے ہے، کہ
اعمال اعراض ہیں، اور اعراض کا وزن نہیں ہوسکتا۔ اس کے چند
جوابات ہیں:
(۱) ممکن ہے،
صحائف اعمال کو جواز قبیلِ جواہر ہیں، وزن کیا جائے۔
(۲) ممکن ہے،
اعمال کو اجسام میں رکھا جائے، پھر ان اجسام کا وزن کیا جائے۔
چناں چہ بعض علماء فرماتے ہیں، کہ مطیعین کے اعمال کو
اچھی صورت میں اور مسیئین کے اعمال کو قبیح صورت
میں رکھا جائے گا، پھر وزن کیاجائے گا۔
(۳) شیخ
ابن القیم رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں، کہ ”عالم تین
ہیں: عالمِ دنیا، عالمِ برزخ اور عالمِ آخرت۔ ان میں سے
ایک عالم کا دوسرے عالم پر قیاس ہی بیجا ہے، کیوں
کہ ہر عالم کے نوامیس و قوانین اور حالات جدا ہیں۔“ بلکہ
دارِ دنیا ہی میں اقالیم کے بدلنے سے حالات بدل جاتے
ہیں مثلاً یہاں اس وقت دن ہے، انڈیا میں رات ہے۔
یہاں سردی ہے، سعودیہ میں گرمی ہے۔
یہاں چوبیس گھنٹے کے دن و رات ہیں، فن لینڈ، سویڈن
اور ناروے کے بعض علاقوں میں چھ مہینے کا دن اور چھ مہینے
کی رات ہے۔ لہٰذا دارِ دنیا میں اگر اعراض کا وزن
نہ ہوسکتا ہو، تو اس سے یہ کہاں لازم آیا، کہ دارِ آخرت میں
بھی ان کا وزن نہیں ہوسکے گا۔ ممکن ہے جو چیز یہاں
عرض ہو، اُس عالم میں جاکر جوہر ہوجائے۔ ایک آن اور ایک
محل میں شئے واحد عرض وجوہر نہیں ہوسکتی، مگر یہ تو
ہوسکتا ہے، کہ ایک شئے یہاں عرض ہو اور دوسری جگہ جوہر
ہوجائے۔ اس کے ممتنع ومحال ہونے پر کوئی دلیل قائم نہیں
ہوسکتی۔
تقریب
الیٰ الفہم کے لیے معقولی مثال سے اس طرح وضاحت کی
جاسکتی ہے، کہ آدمی کے ذہن میں مثلاً پہاڑ کا تصور آیا،
پہاڑ جوہر ہے، لیکن ذہن میں اس کی جو صورت حاصل ہوئی، پائی
گئی، یہ عرض ہے۔ تو جو نسبت ذہن کو خارج سے ہے، ہم کہتے
ہیں، کہ وہی نسبت دنیا کو آخرت سے ہے۔ جس طرح اَعراضِ
ذہنیہ خارج میں جواہر ہیں، اسی طرح اعراضِ
دنیویہ آخرت میں جواہر ہوں تو کیا اشکال ہے؟
صحیح مسلم
وغیرہ میں رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کا ارشاد مروی ہے، کہ
”قیامت کے دن سورئہ بقرہ اور سورئہ آل عمران اس طرح آئیں گی، گویا
کہ یہ دو بادل ہیں، یا دو سائبان ہیں، یا پَر
پھیلائے ہوئے پرندوں کی دوڈاریں ہیں۔“
دیکھئے! سورئہ بقرہ اور سورئہ آل عمران جوہر کی صورت اختیار
کرلیں گی۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے
مروی ہے، کہ اعمال کو جسم عطا کردیا جائے گا۔
علامہ جلال
الدین دوانی معقولی رسالہٴ ”زوراء“ میں فرماتے
ہیں، کہ جو اعمال ہم کرتے ہیں، وہ یہاں اعراض ہیں، مگر
عالمِ آخرت میں جواہر ہوں گے۔ اور ان کے لیے یہ صورتِ
جوہریہ اعمال کے صدور ہی کے وقت سے حاصل ہوجاتی ہے۔
جب اعمال اُس عالم
میں اعراض نہ رہیں گے؛ بلکہ جوہر ہوجائیں گے، تو پھر اُن کے وزن
میں کیا اشکال ہوسکتا ہے؟
(۴) چوتھا جواب
یہ ہے، کہ کوئی زمانہ گذرا ہے، جس میں دنیا میں
اعراض کا وزن نہیں ہوتا تھا، یا اعراض کا وزن خلافِ عادت قرار
دیا جاتا تھا، خلافِ عقل نہیں، آج کے زمانے میں تو اعراض کا وزن
خلافِ عادت بھی نہیں رہا، کیوں کہ اعراض کا وزن ہورہا ہے اور
خوب ہورہا ہے۔ پہلے حکماء حرارت و برودت کو مقولہٴ کیف سے
سمجھتے تھے، جس کے لیے وزن اورمقدار نہیں ہوسکتی، مگر آج کے
زمانے میں بعض آلات کے ذریعے سے ان کا وزن کیاجاتا ہے کہ اس مکان
میں کتنے درجہ کی حرارت ہے اور کتنے درجہ کی برودت ہے۔
بخار میں تھرمامیٹر سے مریض کی حرارت کا وزن کیا
جاتا ہے، آواز کی رفتار ناپی جاتی ہے۔ بجلی کا وزن
ہوتا ہے، ہر تین مہینے میںآ نے والا بجلی کا بِل بتاتا
ہے، کہ کتنے یونٹ بجلی استعمال کی ہے۔
وزنِ اعمال کو محال
قرار دینے والوں نے کہا تھا، کہ اگر وزنِ اعمال کو ممکن تسلیم
بھی کرلیں، تو یہ بے سود وعبث ہے، کیوں کہ وزن سے مقصود
تفاوتِ اعمال کا علم ہے، اوراللہ تعالیٰ کو تو تفاوتِ اعمال معلوم ہے،
اور بے فائدہ وعبث کا انجام دینا قبیح ہے، اوراللہ تعالیٰ
قبیح سے منزہ ومبرّا ہے۔
اس کا جواب اولاً تو
یہ ہے، کہ ﴿لایسئل عما
یفعل وہم یسئلون﴾․
(الانبیاء:۲۳) ”وہ جو کچھ کرتا ہے،
اس سے کوئی باز پرس نہیں کرسکتا اور اوروں سے باز پرس کی
جاسکتی ہے۔“
اور ثانیاً
یہ ہے، کہ وزنِ اعمال عبث نہیں ہے، کیوں کہ وزن اعمال سے مقصود
یہ نہیں، کہ اللہ تعالیٰ وزن سے بندوں کے تفاوتِ اعمال پر
مطلع ہوں، العیاذُ باللّٰہ․ وہ تو عالِمُ
الغیبِ والشہادة ہیں۔ علیمٌ بذات الصدور ہیں، ہر
شخص کے قول وفعل سے بخوبی واقف ہیں۔ حافظ ابن ناصرالدین
دِمَشقی رحمة اللہ علیہ نے ”منہاج الاستقامة“ میں اس کی
پانچ وجوہ ذکر کی ہیں۔ دوسرے علماء بھی کچھ وجوہ
بیان کی ہیں۔ یہاں چند ذکر کی جاتی
ہیں:
(۱) وزنِ اعمال
سے مقصود اتمامِ حجت ہے۔ (۲) علامتِ سعادت وشقاوت کا اظہار
ہے۔(۳) دنیا میں اس کے ذریعے مکلّفین کا
امتحان مقصود ہے، کہ میزان ووزنِ اعمال پر ایمان لاتے ہیں
یا نہیں؟ (۴) جو مخلوط عمل والے ہیں، جن کے نیک و
بد اعمال ملے جلے ہیں، ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ اگر عفو کا
معاملہ فرمائیں، تو وہ جان لیں، کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے
ساتھ فضل کا برتاؤ فرمایا ہے۔ اور اگر عقاب دیں، تو ان کو
یقین ہوجائے، کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ عدل کا معاملہ
فرمایا ہے۔ مختصر لفظوں میں کہیں، تو وزنِ اعمال سے مقصود
اظہارِ عدل وفضل ہے۔ (۵) متقی کے اعمال کا وزن ہوگا، تاکہ لوگوں
کے سامنے اس کا فضل ظاہر ہو۔ اور کافر کے اعمال کا وزن ہوگا، تاکہ لوگوں کے
سامنے اس کی ذلت و خواری اور رسوائی ہو۔ (۶) حسنات
والے پلڑے کے جھکنے کی صورت میں آدمی کی مسرت وفرحت
میں اضافہ ہو، اور برعکس صورت میں رنج وغم میں اضافہ کا باعث
ہو۔
اہل سنت کے دلائل
فِرقِ باطلہ کے دلائل
اور ان کے جوابات کے بعد اب ہم اہلِ سنت والجماعة کے دلائل کی طرف آتے
ہیں۔ اہل سنت کے دلائل کئی ایک ہیں، جن میں
سے چند یہ ہیں:
(۱) اللہ
تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿والوزن یومئذن الحق فمن ثقلت موازینہ
فاولئک ہم المفلحون ومن خفت موازینہ فاولئک الذین خسروا انفسہم بما
کانوا بآیٰتنا یظلمون﴾․ (الأعراف:۸-۹) ” اور اس روز وزن واقع ہونے والاہے۔ پھر جس شخص کا پلڑا بھاری
ہوگا، سوایسے لوگ کامیاب ہوں گے۔ اور جس شخص کا پلڑا ہلکا ہوگا،
سویہ وہ لوگ ہوں گے، جنھوں نے ہماری آیتوں کی حق
تلفی کرنے کی وجہ سے اپنا نقصان کرلیا۔“
(۲) سورة
الموٴمنون میں ارشاد ہے: ﴿فمن ثقلت موازینہ فاولئک ہم المفلحون ومن خفت
موازینہ فاولئک الذین خسروا انفسہم فی جہنم خلدون﴾․ (الموٴمنون:
۱۰۲-۱۰۳) ”سوجس شخص کا پلڑا بھاری ہوگا، تو ایسے لوگ کامیاب ہوں
گے۔ اور جس شخص کا پلڑا ہلکا ہوگا، سو یہ وہ لوگ ہوں گے، جنھوں نے
اپنا نقصان کرلیا اور جہنم میں ہمیشہ کے لیے رہیں
گے۔“
(۳) سورة
القارعة میں ہے: ﴿فاما من ثقلت
موازینہ فہو فی عیشة راضیة واما من خفت موازینہ
فامہ ہاویة﴾․ (القارعة: ۶
الٰی۹) ”پھر جس شخص کا پلڑا
بھاری ہوگا، وہ تو خاطر خواہ آرام میں ہوگا۔ اور جس شخص کا پلڑا
ہلکا ہوگا، اس کا ٹھکانا ہاویہ ہوگا۔“
(۴) امام
بخاری رحمة اللہ علیہ کی باب میں ذکر کردہ آیتِ
قرآنیہ: ﴿ونضع
الموازین القسط لویم القیامة فلا تظلم نفس شیئا وان کان
مثقال حبة من خردل اتینا بہا وکفٰی بنا
حٰسبین﴾․
(الانبیاء:۴۷) ”اور قیامت کے
روز ہم میزانِ عدل قائم کریں گے، سو کسی پر اصلاً ظلم نہ
ہوگا۔ اور اگر عمل رائی کے دانہ کے برابر بھی ہوگا، تو ہم اس کو
حاضر کردیں گے۔ اور ہم حساب لینے والے کافی ہیں۔“
(۵) صحیح
ابن خزیمہ میں سلیمان تیمی رحمہ اللہ کے طریق
سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے اور مسندِ احمد میں حضرت عبداللہ بن عباس
رضی اللہ عنہما سے مروی امّ السُّنّة: حدیث جبریل
میں ”ما الایمان؟“کے جواب میں رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے
جہاں اللہ تعالیٰ، ملائکہ اور کتب و رُسل وغیرہ پر ایمان
لانے کو بیان فرمایا ہے، وہیں ایمان بالمیزان کا
ذکر بھی فرمایاہے۔
(۶) امام
بخاری رحمة اللہ علیہ کی باب کے ذیل میں ذکر کردہ
حدیثِ پاک: کلمتان حبیبتان
الٰی الرحمن، خفیفتان علی اللسان، ثقیلتان فی
المیزان: سبحان اللّٰہ وبحمدہ سبحان اللّٰہ العظیم․ ”دو کلمے رحمن کو نہایت محبوب ہیں، زبان پر
نہایت ہلکے پھلکے ہیں، میزان میں بڑے وزن دار ہیں: سبحان اللّٰہ وبحمدہ:
سبحان اللّٰہ العظیم․
وزنِ اعمال کے
منکرین نے ان جیسی نصوص میں وارد میزان
وموازین کے الفاظ میں تاویل کی، اور کہا، کہ اس سے مراد
عدل و انصاف ہے، کہ اللہ تعالیٰ عدل و انصاف کی
ایسی رعایت کریں گے، کہ اس میں ذرہ برابر تفاوت
واقع نہ ہوگا۔ میزان و موازین سے وزن کا آلہ مراد نہیں
ہے۔
اہلِ سنت والجماعة
فرماتے ہیں، کہ میزان و موازین کے معنیٴ
حقیقی وزن کا آلہ ہے، اور اس سے محض دل و انصاف مراد لینا
معنیٴ مجازی ہے، اور بلا ضرورت حقیقت کو ترک کرنا اور
مجاز کی طرف جاناجائز نہیں، خصوصاً جبکہ اس سلسلے میں
اسانید صحیحہ کے ساتھ احادیث کثیرہ منقول
ہیں۔
آمدی رحمة اللہ
علیہ نے ان متأولین کا رد کرتے ہوئے فرمایا: کہ نصوص میں
موازین ثقل وخفت کے ساتھ موصوف ہے، جبکہ عدل وانصاف کو ثقل خفت کے ساتھ
متّصف نہیں کیا جاتا، اس لیے میزان و موازین
کی تاویل عدل وانصاف سے صحیح نہیں ہے۔
میزان
پیدا شدہ ہے؟
میزان
پیدا شدہ ہے، بنادی گئی ہے، یا آئندہ بنائی جائے
گی؟ نظمِ قرآنی ﴿ونضع الموازین﴾ سے کوئی
بات نکلتی نہیں ہے، کیوں کہ ”ونضع“ کے معنی ہیں:
ونُحضِرہا، ”ہم حاضر کریں گے“۔ ونُقیمُہا، ”ہم قائم کریں
گے۔“
سلیمان جمل
رحمةاللہ علیہ فرماتے ہیں، کہ میزان کون سے جوہر ومادہ کی
ہے، اور یہ کہ میزان فی الحال موجود ہے یا آئندہ وجود
میں آئے گی؟ ان امور کی تعیین سے ہم رکتے ہیں۔
شیخ
ناصرالدین لَقَانی مالکی رحمة اللہ علیہ فرماتے
ہیں، کہ میزان کس مادہ ومٹیریل کی ہوگی، اس
سلسلے کی کسی نص پر جیسے میں واقف نہیں ہوسکا ہوں،
اسی طرح ایسی کوئی نص پر بھی میں واقف
نہیں ہوسکاہوں، جو اس بات پر دلالت کرے، کہ میزان بنائی اور
پیدا کی جاچکی ہے، یا آئندہ بنائی جائے
گی۔
علامہ آلوسی
رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں، کہ اس سلسلے میں ایک
روایت ہے، جو اس بات میں نص ہے، کہ میزان بن چکی ہے،
لیکن اس روایت کاحال مجھے معلوم نہیں ، کہ وہ کس درجے کی
ہے؟ لہٰذا روایت قابلِ تحقیق ہے۔ وہ روایت یہ
ہے کہ:
حضرت داؤد علیہ
السلام نے اللہ تعالیٰ سے درخواست کی، کہ مجھے میزان
دکھائیے۔ اللہ تعالیٰ نے میزان دکھائی۔
تفسیر بغوی اور خازن وغیرہ میں مذکور روایت کے
اضافہ کے مطابق اس کا ہر پلڑا مشرق و مغرب کو محیط تھا۔ حضرت داؤد
علیہ السلام میزان دیکھ کر بے ہوش ہوگئے۔ جب افاقہ ہوا،
تو عرض کیا: بارِ الٰہا! کون شخص اس کے پلڑے کو نیکیوں سے
پُرکرسکے گا؟
یہاں ایک
لمحہ رک کر یہ سوچیے، کہ یہ سوال کون کررہے ہیں؟ حضرت
داؤد علیہ السلام کررہے ہیں، جن کو اللہ نے ”خلیفة فی
الأرض“ قرار دیا۔ ایک طرف پیغمبرانہ تقویٰ و
تقدس، دوسری طرف عبادت کا یہ حال کہ حدیثِ صحیح کی
تصریح کے مطابق روزانہ ان کی تہائی رات عبادت میں صرف
ہوتی تھی، اور ایک دن روزہ اور ایک دن افطار کرتے تھے،
دشمن سے مڈبھیڑ کے وقت پشت نہیں دکھاتے تھے۔ ان سب کے باوجود
میزان کو دیکھ کر ہول و دہشت کی وجہ سے طاری ہونے
والی بے ہوشی کے بعد یہ سوال کہ الٰہی! من الذی یقدر
علی ان یملأ کِفّتہ حسنات؟ ”اس کے پلڑے
کو نیکیوں سے کون پُرکرسکے گا؟“ اپنے اندر بڑا سبق اور معنی
رکھتا ہے۔
حضرت داؤد علیہ
السلام کے سوال پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: یا داود، انی
اذا رضیت عن عبدی ملأتہا بتمرة․ ”اے داود! جب میں اپنے کسی بندے سے راضی
ہوں گا، تو اس کو ایک کھجور سے بھردوں گا، پُرکردوں گا۔“
امام ابن ابی
شیبہ رحمة اللہ علیہ نے اپنے ”المُصَنَّف“ میں ثقہ رُواة سے
روایت نقل کی ہے، جس کو حضرت عبداللہ بن مبارک رحمة اللہ علیہ
نے بھی ”کتاب الزہد“ میں ذکر کیا ہے، کہ ایک راہب اپنے
گرجا میں ساٹھ سال سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کررہا
تھا۔ علامہ شعرانی رحمة اللہ علیہ نے ”الیواقیت
والجواہر“ میں پانچ سو سال نقل کیاہے، لیکن انھوں نے اس کو
بلاسند کے ذکر کیاہے۔ ایک مرتبہ بارش کے زمانے کے بعد اس نے
اپنے گرجا سے نیچے دیکھا، تو جگہ جگہ پانی سے بھرے تالاب اور
سبزہ نظر پڑا۔ خوش نما منظر سے لطف اندوز ہونے کے لیے وہ گرجا سے
اترا، اور چہل قدمی کرنے لگا۔ وہاں ایک خاتون مل گئی، اس
کے ساتھ باتیں کرنے لگا، آخرش اس سے منھ کالا کیا۔ اس راہب کے
پاس ایک تھیلی تھی، جس میں ایک روٹی
تھی۔ اس کو ایک جگہ رکھ کر غسل کرنے کے لیے پانی
میں اترا۔ ادھر اس کی موت کا وقت آگیا۔ ایک
سائل وہاں سے گذرا۔ راہب نے سائل کو روٹی کی طرف اشارہ
کیا۔ سائل نے روٹی لے لی، پھر راہب کا انتقال
ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس کے ساٹھ
سالہ اعمال کا وزن کیاگیا، تو ساٹھ سال کی عبادت کے مقابلے
میں زنا والا پلڑا بھاری ہوگیا۔ اس کے بعد جاں کنی
سے پہلے سائل کو صدقہ کی ہوئی روٹی کو نیکیوں والے
پلڑے میں رکھا گیا، تو نیکیوں والا پلڑا بھاری
ہوگیا، اور اس کی معافی ہوگئی۔
یہاں یہ
یاد رہے، کہ وزنِ اعمال تو روزِ محشر میں ہوگا، لیکن محقق
الوقوع امور کے لیے روایات میں بعض مرتبہ ماضی کا انداز
اختیار کیا جاتا ہے، وہی اسلوب اِس روایت میں
اختیار کیاگیا ہے۔
امام ابوالقاسم
قشیری رحمة اللہ علیہ نے کتاب ”التحبیر فی
التذکیر“ میں نقل کیا ہے، کہ ایک آدمی کا انتقال
ہوا۔ بعد میں کسی نے اس کو خواب میں دیکھا، پوچھا:
اللہ تعالیٰ نے تیرے ساتھ کیا معاملہ فرمایا؟ کہا:
میری نیکیاں اور بدیاں وزن کی گئیں، تو
بدیاں نیکیوں پر غالب آئیں، بدیوں والا پلڑا
بھاری ہوگیا، پھر اوپر کی جانب سے ایک تھیلی آئی،
اور نیکیوں والے پلڑے میں گری، تو نیکیوں
والا پلڑا وزنی ہوگیا۔ اس کے بعد میں نے
تھیلی کھولی، تو اس میں وہ مٹھی بھر مٹی
تھی، جو میں نے ایک مسلمان آدمی کی تدفین کے
وقت اس کی قبر پر ڈالی تھی۔ یہ واقعہ استیناس
کے لیے ذکر کیا ہے۔
دیکھئے!
یہ کوئی عام حکم نہیں ہے، کہ انسان زندگی بھر کبائر کا
ارتکاب کرتا رہے۔ پھر جاں کنی سے پہلے پہلے ایک روٹی کا
صدقہ کردے، اور استیناس والے واقعہ میں کسی مسلمان کی
تدفین کے وقت قبر پر کچھ مٹی ڈال دے، اور یہ سمجھے کہ یہ
روٹی کا صدقہ یا قبر پر مٹی ڈالنا اس کے تمام کبائر کے
لیے مکفّر بن جائے گا؛ بلکہ بات وہی ہے، جو پہلی روایت
میںآ ئی، کہ اللہ تعالیٰ جب کسی سے راضی
ہوجائیں، تو ایک کھجور سے نیکیوں والا پلڑا پُر
کردیں۔ ساٹھ سالہ عبادت پر غالب آنے والے زنا کے گناہ پر ایک
روٹی کو وزنی کردے۔ کونسا عمل کس قدر خلوص والا ہے، اور کس قدر
وزن والا ہے، وہ تو اللہ تعالیٰ ہی جانتے ہیں۔
بہرحال حضرت داود
علیہ السلام والی روایت سے معلوم ہوتا ہے، کہ میزان
پیدا کردی گئی ہے۔
بندہ نے ایک حد
تک اس روایت کی سند کا اس کے مظان میں تتبع کیا،
لیکن اسمیں کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔
میزان حساب سے
پہلے قائم کی جائے گی یا حساب کے بعد؟
میزان حساب سے
پہلے قائم کی جائے گی یا حساب کے بعد؟ بالفاظِ دیگر حساب
پہلے ہوگا، یا وزن پہلے ہوگا؟ اس سلسلے میں دو رائیں ہیں:
(۱) امام
بیہقی رحمة اللہ علیہ، امام عبداللہ القُرطُبی رحمة اللہ
علیہ، شیخ شہاب رملی رحمة اللہ علیہ اور صاحب کنز الاسرار
وغیرہ جمہور علماء کی رائے یہ ہے، کہ پہلے حساب ہوگا، پھر وزن
ہوگا، کیوں کہ وزن جزاء کے لیے ہے، تو مناسب ہے، کہ محاسبہ کے بعد ہو،
اس لیے کہ حساب میں تقریر ہوگی، یعنی اللہ
تعالیٰ بندوں کو اپنے سامنے کھڑا کرکے ان کے اعمال پر تفصیلاً
واقف کریں گے، پھر اعمال کی مقادیر کے اظہار کے لیے میزان
قائم کی جائے گی، کہ حسنات اتنی مقدار کی ہے، اور
سیئات اتنی مقدار کی ہے۔
(۲) علامہ
آلوسی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں، کہ آیتِ قرآنیہ
﴿ونضع الموازین القسط․․․﴾ میں پہلے وضعِ موازین کا ذکر ہے، اس کے بعد اختتامِ
آیت پر آرہا ہے: ﴿وکفی بنا
حٰسبین﴾․ اس میں کچھ اشارہ ہے، کہ پہلے وزن ہوگا، پھر حساب
ہوگا۔ ویسے واو مطلق جمع کے لیے آتا ہے، لیکن ممکن ہے کہ
ترتیب ذکری کا بھی کسی درجہ میں اعتبار ہو، اس کو
ملحوظ رکھتے ہوئے علامہ آلوسی رحمة اللہ علیہ نے یہ بات
بیان فرمائی ہو۔
* * *
-------------------------------------
ماہنامہ دارالعلوم ، شماره 06-05 ، جلد: 93 جمادى الاول –
جمادى الثانى 1430 ھ مطابق مئى – جون 2009ء